یہ تو نوے کی دہائی میں ہوتا تھا۔ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کی حکومتوں کو ناکام کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی تھیں۔ 1988ء سے 1990ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو مرتبہ اقتدار میں آئیں اور دونوں جماعتیں دو ہی مرتبہ اپوزیشن میں رہیں۔ اس دور میں (ن) لیگ پی پی پی کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک قرار دیا کرتی تھی۔ بے نظیر بھٹو کے بارے میں (ن) لیگ کی لیڈر شپ یہ تاثر پھیلاتی تھی کہ ان کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ 1989 میں جب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی پاکستان کے دورے پر آرہے تھے تو انہیں سندھ ہاؤس میں ٹھہرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ سندھ ہاؤس کا داخلی گیٹ میری ایٹ ہوٹل کے سامنے واقع تھا جہاں سندھ ہاؤس کے سائن بورڈ کے ساتھ کشمیر ہاؤس کا بورڈ بھی لگا ہوا تھا۔ راجیوگاندھی نے جس دن اسلام آباد پہنچنا تھا اس سے ایک رات قبل جس بورڈ پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا اسے اتار دیا گیا۔ اگلے روز اخبارات میں خبریں شائع ہوئیںکہ راجیوگاندھی کو خوش کرنے کے لیے کشمیر ہاؤس کا بورڈ اتار دیا گیا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ بورڈ وزیراعظم بے نظیر کی ہدایت پر اتارا گیا ہے تاکہ بھارتی مہمان کی طبیعت کو کشمیر ہاؤس کا بورڈ ناگوار نہ گزرے۔ کچھ سال بعد معلوم ہوا کہ یہ بورڈ وزیراعظم کی ہدایت پر نہیں اتارا گیا تھا بلکہ یہ کسی اور کی کارروائی تھی۔ لیکن بورڈ اتارنے کے واقع کو اپوزیشن نے بے نظیر کے خلاف خوب ایکسپلائٹ کیا۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی لائی گئی جو کامیاب نہ ہوسکی ۔ لیکن اسی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ایک تو ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ دوسرا بے نظیر حکومت کو ہلا دیا گیا اور اگلے سال اگست میں جب اس حکومت کے صرف اٹھارہ ماہ مکمل ہوئے تھے کہ صدر نے آرٹیکل 58 ۔2بی کے تحت اسے گھر بھیج دیا۔
1990ء کی آخری سہ ماہی میں جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کو اکثریت مل گئی۔ نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ پیپلز پارٹی کی اسمبلی میں نشستیں بھی صرف 45 رہ گئیں۔ 1990ء سے 1993ء تک پی پی پی نے مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں چین نہ لینے دیا۔ اپوزیشن لیڈر بے نظیر کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ بی بی نے نوازشریف کی پہلی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیا اور قومی اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ بے نظیر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر عدالتوں میں ریفرنس بھی دائر کیے گئے۔ بے نظیر اور آصف علی زرداری کو ’’کرپٹ جوڑا‘‘ قرار دیا گیا۔ سیاسی کشمکش کے اس دور میں بھی پنجاب میں کوآپریٹو بنکوں کا سیکنڈل بھی سامنے آگیا۔ جسے پی پی پی نے (ن) لیگ کی قیادت کے خلاف پوری طرح ایکسپلائٹ کیا۔ (ن) لیگ کے لئے مشکلات پیدا کی گئیں۔ ان مشکلات کو پیدا کرنے میں کچھ نادیدہ قوتیں بھی شامل ہوگئیں۔ نوازشریف حکومت کو اپریل 1993ء کو آرٹیکل 58 2- بی کے تحت فارغ کر دیا گیا۔
1993ء کی آخری سہ ماہی میں انتخابات کرائے گئے تو پی پی پی کو اکثریت ملی اور اس نے حکومت بنالی لیکن (ن) لیگ نے پی پی پی کی حکومت بننے کے چندماہ بعد اس حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے تحریک نجات شروع کر دی۔ پھر (ن) لیگ نے حکمران جوڑے (بے نظیر اور آصف علی زرداری) کے خلاف کرپشن کے سیکنڈل لے کر آگئی۔ برطانیہ میں سرے محل کی خریداری اور بدعنوانی کے کئی دوسرے سیکنڈل منظر عام پر آگئے یہ سیکنڈل نومبر 1996ء میں پی پی پی کی دوسری حکومت کے خاتمے کا سبب بنے۔ فروری 1997ء میں (ن) لیگ دو تہائی اکثریت سے وجود میں آگئی۔ 1997ء سے اکتوبر 1999ء تک نوازشریف حکومت اور پی پی پی کی اپوزیشن کے درمیان سر پھٹول جاری رہا۔ جمہوریت اور پارلیمانی روایات مستحکم نہ ہوسکیں۔
گزشتہ دس ماہ میں پی ٹی آئی کی حکومت (ن) لیگ اور پی پی پی کی اپوزیشن کے درمیان قومی اسمبلی میںجو سیاسی کشمکش جاری ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ نوے کی دہائی والی سیاست واپس آگئی ہے۔ جمعہ کے روز نئے مالی سال کے بجٹ پر بحث شروع ہوئی تو یہ ایک ہنگامے میں بدل گئی۔ ڈپٹی سپیکر کو اسمبلی کا اجلاس تین مرتبہ ملتوی کرنا پڑا جب حالات ڈپٹی سپیکر کے قابو سے باہر ہوگئے تو انہوں نے اجلاس پیر تک ملتوی کر دیا۔ کل کے اجلاس کو دیکھ کر 1990ء والی قومی اسمبلی کے اجلاس یاد آگئے۔ اپوزیشن نے تو یہ طے کر لیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کویہ بجٹ آسانی سے منظور نہیں کرانے دے گی۔ اگر حکومت اور اپوزیشن نے آئندہ اجلاسوں میں بھی وہی رویہ اپنایا جو جمعہ کے اجلاس میں دیکھنے میں آیا تو پھر اس نظام کے چلنے کے بارے میں سنجیدہ سوالات پیدا ہو جائیں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی جمعہ کے روز نیب نے گرفتار کرلیا ہے۔ نوازشریف پہلے ہی جیل میں ہیں حمزہ شہباز بھی مشکل میں ہیں اور شہباز شریف کے سر پر بھی خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی تو آسانی سے چلتی نظر نہیں آتی۔ اپوزیشن اب سڑکوں پر بھی ہنگامہ کھڑا کرنے کے لئے تیاری کررہی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024