وفاقی اور پنجاب حکومت کو عوامی اضطراب سے بچنے کیلئے بجٹ پر نظرثانی کرنی چاہیے
پنجاب کا وفاقی حکومت کی طرز کا اور سندھ کا ٹیکس فری بجٹ۔ عوامی‘ تجارتی اور ملازم پیشہ طبقات کا ردعمل
پنجاب کا مالی سال 2019-2020ء کا 23 کھرب 57 کروڑ روپے کا بجٹ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں پیش کردیا گیا جس میں نیا ٹیکس متعارف کرانے سمیت پروفیشنل ٹیکس ریٹ میں دو گنا اضافے‘ زرعی آمدن پر زرعی اراضی کی بنیاد اور سالانہ زرعی آمدن پر ٹیکس میں اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی کے دائرہ کار میں پانچ نئی سروسز شامل کی گئی ہیں۔ سیلز ٹیکس کے سروسز پر ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد عائد کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے جبکہ معاہدات کی مختلف اقسام‘ جائیداد رہن رکھوانے سمیت دیگر دستاویزات پر سٹمپ ڈیوٹی کا زیادہ سے زیادہ ریٹ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ مقرر کیا گیاہے۔ فنانس بل میں پنجاب حکومت نے سالانہ دو لاکھ 43 ہزار آمدن تک کی بلڈنگز اور اراضی پر بیوائوں‘ مطلقہ خواتین‘ معذوروں‘ کم عمر یتیم بچوں اور غیرشادی شدہ یتیم خواتین کو پراپرٹی ٹیکس سے استثنیٰ دینا تجویز کیا ہے جبکہ پروفیشنل ٹیکس میں شامل تمام کیٹیگریز ماسوائے وکلاء کا پروفیشنل ٹیکس دوگنا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بجٹ میں تعلیم کیلئے مجموعی طور پر 3829 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں اور گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ گریڈ 17 سے گریڈ 20 تک بنیادی تنخواہوں میں پانچ فیصد اضافہ کیا جائیگا جبکہ گریڈ 21 اور 22 کے ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں اور وزیراعلیٰ اور وزراء کی تنخواہوں میں دس فیصد کمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ بجٹ میں مقامی حکومتوں کیلئے 437‘ ارب 39 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اور ہمقدم پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت ماہانہ دو ہزار روپے وظیفہ دیا جائیگا۔ اسی طرح احساس پروگرام بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت بیوائوں کو ماہانہ دو ہزار روپے دیئے جائینگے۔ صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جوان بخت نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ لاہور چلڈرن ہسپتال کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائیگا اور صوبے میں چھ نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی اور اسی طرح 9 نئے ہسپتال بھی تعمیر کئے جائینگے۔ بجٹ میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کیلئے تین ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
گزشتہ روز سندھ کا بجٹ بھی سندھ اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔ 12 کھرب 18‘ ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ خود وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے پیش کیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ وفاقی حکومت سے 835‘ ارب روپے ریونیو کی مد میں موصول ہونے کی توقع ہے جبکہ صوبائی ریونیو سے 355 ارب روپے حاصل ہونگے۔ بجٹ میں ایف بی آر سے وصولیوں کا ہدف 145‘ ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں ضلعی اور صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 228‘ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سندھ کا نئے سال کا مجوزہ بجٹ زیرو فیصد خسارے کا ہے جس میں محکمہ پولیس کیلئے 3 ہزار 690 سپاہیوں اور چار ہزار 500 افسران کی نئی اسامیاں نکالی گئی ہیں۔ بجٹ میں ایچ آئی وی اور خون کے امراض کی تحقیقات کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مجوزہ بجٹ میں پولیس کے شہید ہونیوالے اہلکاروں کے لواحقین کیلئے معاوضے کی رقم پچاس لاکھ روپے سے بڑھا ایک کروڑ روپے کردی گئی ہے جس کیلئے بجٹ میں دو ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی حکومت کیلئے بجٹ ہی اصل امتحان ہوتا ہے کہ وہ اسکی بنیاد پر عوام کو سہولتیں فراہم کرکے ان کیلئے خوشی اور خوشحالی کے دروازے کھولتی ہے یا بالواسطہ اور براہ راست ٹیکسوں کی بھرمار کرکے انکی زندگیاں مزید اجیرن بناتی ہے۔ اس حوالے سے بالعموم کسی بھی حکومت کے بجٹ نے اپنے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کے حوالے سے عوام کو مطمئن نہیں کیا البتہ حکومتیں ضرور اپنے بجٹ کو عوام دوست قرار دیکر اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہیں حالانکہ بجٹ میں محض الفاظ کی جادوگری اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے ذریعے سیاہی کو سفیدی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جب اس بجٹ کی بنیاد پر عوام پر نئے اور اضافی ٹیکسوں اور انکے نتیجہ میں ہونیوالی مہنگائی کا بوجھ پڑتا ہے تو انکے پاس چیخنے‘ کراہنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں رہتا۔
ہر حکومت کی اپوزیشن کیلئے بھی بجٹ کے موقع پر ہی حکومت کیخلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے مواقع نکلتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگاتی۔ پی ٹی آئی اپنے اپوزیشن کے دور میں حکومتی شاہ خرچیوں اور عوام کو وسائل و روزگار سے محروم کرنے کے بجٹ اقدامات اور یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی تواتر کے ساتھ ہونیوالے اضافہ کی بنیاد پر اپنی احتجاجی دھرنا تحریک میں حکمرانوں کو زچ کرتی رہی ہے جبکہ اس تحریک کے دوران ہی پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے لگا کر اور پھر ریاست مدینہ کی جھلک دکھا کر روزمرہ کے گوناںگوں مسائل میں گھرے عوام کی ہمدردیاں حاصل کیں اور انہیں اقتدار میں آکر مسائل کے دلدل سے نکالنے کا یقین دلاتے رہے چنانچہ عوام نے انکے ساتھ توقعات بھی زیادہ وابستہ کرلیں۔
جب عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر عمران خان وفاق‘ پنجاب اور خیبر پی کے میں اقتدار میں آئے تو عوام کو اپنے مقدرات کے اندھیرے چھٹتے نظر آئے اور گمان ہونے لگا کہ اب انکے سارے مسائل پلک جھپکتے میں حل ہو جائینگے تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار کے پہلے ماہ میں ہی ڈالر کی شرح بڑھنے‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم کے نرخوں میں اضافہ ہونے اور ضمنی میزانیہ کے ذریعے ان پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ پڑنے سے جس سرعت کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوا‘ اسکے باعث غریب عوام کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ پھر عوام کے یہ مسائل ہر ماہ بڑھنے لگے اور حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کا کوئی اہتمام ہوتا ہوا بھی نظر نہ آیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار کے دس ماہ عوام کو لگنے والے مہنگائی کے جان لیوا تھپیڑوں میں ہی گزر گئے اور گزشتہ ماہ جب حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن قبول کرکے اسکے ساتھ چھ ارب ڈالر کے پیکیج کا معاہدہ کیا تو اسکے ساتھ ڈالر نے بھی جستیں بھرنا شروع کردیں۔ اس طرح آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کئے گئے یوٹیلٹی بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے سے بھی مہنگائی بڑھی اور ڈالر کے ڈیڑھ سو روپے کی حد کراس سے بھی مہنگائی مزید شتربے مہار ہوئی جس سے براہ راست عام آدمی ہی متاثر ہوا جبکہ حکومت کی جانب سے انہیں آئندہ بجٹ میں ریلیف کی طفل تسلی دینے سے بھی گریز کیا گیا اور اسکے برعکس حکومتی وزراء اور پی ٹی آئی کی ٹیم میں شامل اقتصادی ماہرین عوام کو انکے اقتصادی حالات مزید خراب ہونے اور مہنگائی مزید بڑھنے کے روح فرسا بیانات کے ذریعے کچوکے لگاتے رہے۔ اس تناظر میں عوام کو وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں کسی قسم کا ریلیف ملنے کی ہرگز توقع نہیں تھی جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی عوامی اضطراب سے پیدا ہونیوالی صورتحال کو اپنے حق میں حکومت مخالف تحریک کی صورت میں کیش کرانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو رہی تھیں۔
قومی اسمبلی میں 12 جون کو پیش کئے گئے وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار کرکے عوام کو عملاً زندہ درگور کرنے کا اہتمام کیا گیا تو اپوزیشن نے منتخب ایوانوں میں یہ بجٹ منظور نہ ہونے دینے کی پالیسی طے کرلی۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اسی پالیسی کے تحت حکومت اور اپوزیشن میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کسی کو نہ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں تو اپوزیشن انہیں بجٹ منظور کراکے دکھانے کا چیلنج دیتی نظر آتی ہے۔ سیاسی محاذآرائی کی اس فضا میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پنجاب کا عوام دوست فلاحی بجٹ پیش کرنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم سے کم ڈالا جائیگا چنانچہ صوبے کے عوام کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ پنجاب کے بجٹ میں ریلیف ملنے سے وفاقی بجٹ کے ذریعے ان پر ڈالا جانیوالا مہنگائی کا بوجھ قدرے کم ہو جائیگا تاہم گزشتہ روز پنجاب کا جو بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا وہ وفاقی بجٹ کا پرتو ہی نظر آتا ہے جس میں متعدد مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کے ساتھ ساتھ نئے ٹیکس بھی متعارف کرادیئے گئے ہیں۔ اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بجٹ اعداد و شمار کی جادوگری نہیں بلکہ عوام کی فلاح کا بجٹ ہے تاہم اقتصادی ماہرین کے مطابق یہ بجٹ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ وفاقی بجٹ کی طرز پر ہی بنایاگیا ہے جس میں ٹیکسوں کی بھرمار کا سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقات پر پڑیگا۔
اب وفاقی حکومت کی طرح پنجاب حکومت کو بھی بجٹ کی منظوری کے حوالے سے ایک مضبوط اپوزیشن کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا جس نے گزشتہ روز بجٹ پیش ہونے کے وقت بھی سرکاری بنچوں کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسکے برعکس گزشتہ روز پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے غیرمتوقع طور پر ٹیکس فری اور زیرو خسارے کا بجٹ سندھ اسمبلی میں پیش کیا۔ اگرچہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کو بھی اپنی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن بنچوں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے ارکان پر مشتمل ہے تاہم سندھ کے مجوزہ بجٹ پر سندھ کے عوام اور سرکاری ملازمین اطمینان کا سانس لیتے نظر آرہے ہیں۔ اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا اور محصولات کی وصولی کا ہدف بھی آسانی کے ساتھ پورا کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے تو اس سے لامحالہ عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ نہیں پڑیگا جبکہ سرکاری ملازمین وفاق کے مقابل اپنی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کو اپنے لئے ایک بڑی خوشخبری سے تعبیر کررہے ہیں۔ سندھ حکومت نے بادی النظر میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پر پوائنٹ سکورنگ کی نیت سے ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ہے جس میں وصولیوں کے متعینہ اہداف پورے نہ ہوپائے تو بجٹ کے زیرو خسارے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائینگے تاہم سندھ حکومت کی ہر ممکن کوشش یہی ہوگی کہ طفل تسلیوں کے ذریعے عوام کی امیدیں ٹوٹنے نہ دی جائیں۔
آج عوام کو فی الحقیقت حکومت یا اپوزیشن کی ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی نہیں بلکہ عملی طور پر اپنے مسائل میں ریلیف کی ضرورت ہے۔ حکومت انہیں مطمئن کرکے ہی انکی امیدوں پر پورا اتر سکتی ہے اور عوامی اطمینان وفاق اور پنجاب کے بجٹ پر نظرثانی کرکے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وفاق اور پنجاب کے مجوزہ میزانیوں کی بنیاد پر تو اپوزیشن کیلئے حکومت مخالف تحریک کے مزید مواقع نکلیں گے جو حکومت کی مشکلات میں اضافے پر منتج ہوسکتے ہیں۔