شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس: پاکستان کے نکتۂ نظر کی پذیرائی
کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کا 19 واں سربراہ اجلاس ختم ہو گیا۔ اختتامی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ رُکن ممالک دہشت گردی کی ہر شکل اور کارروائی کی مذمت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف تعاون، دوہرے معیار اور اسے سیاست زدہ کئے بغیر کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے رُکن ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعظم مودی نے بھی شرکت کی۔ بنیادی طور پر یہ تنظیم، چین، روس اور سابق سوویٹ یونین میں شامل وسط ایشیائی ریاستوں پر مشتمل ہے۔ تنظیم نے اپنے محل وقوع اور چین اور روس ایسی بڑی معیشتوں کے باعث عالمی سیاست میں بڑی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ اس دفعہ تنظیم کے اجلاس کا خاص پہلو یہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی متحرک اور فعال شخصیت سے شرکاء بہت متاثر ہوئے۔ اور ان کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے مودی کا موڈ اکثر آف ہی رہا۔ وزیراعظم نے جس خوبصورتی کے ساتھ مسئلہ کشمیر دہشت گردی اور پاک بھارت تعلقات کو وضاحت سے پیش کیا اُس کے اثرات شرکاء پر واضح نظر آئے۔ پاکستان اور چین دونوں کی معیشتیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ اور سی پیک نے دونوں ہمسایہ ممالک کو ایک ناقابل شکست لڑی میں پرو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے وزیراعظم عمران خان سے بڑی گرم جوشی سے ملاقات کی، پاکستان کے روس کے ساتھ ماضی میں کئی دہائیوں تک رسمی سے تعلقات رہے ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں میں قربت ہونے کے باعث، رنجشوں اور غلط فہمیوں کی دھند بڑی حد تک چھٹ گئی ہے۔ اس کا مظاہرہ اس اجلاس میں دیکھنے میں آیا کہ صدر ولادی میر پیوٹن کا جب بھی وزیراعظم عمران خان سے سامنا ہوا، دونوں طرف سے بے تکلفی کا اظہار ہوا۔ وزیراعظم کی چینی صدر سے ملاقات میں سٹرٹیجک شراکت داری پر اتفاق کیا گیا تو وزیراعظم نے صدر پیوٹن کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے آگاہ کیا۔ اور اُنہیں بتایا کہ کشمیریوں کی جدوجہد دہشتگردی نہیں، بلکہ آزادی کی جنگ ہے۔ صدر پیوٹن وزیراعظم کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے۔ اُنہوں نے پاکستان کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے سربراہ اجلاس سے خطاب میں بھی اور سربراہوں سے فرداً فرداً ملاقاتوں میں بھی تفصیل سے بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں بے بہا قربانیاں دے کر نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس جنگ میں حاصل تجربہ اور اس کی معاونت سے خطہ کو دہشت گردی سے پاک کیا جا سکتا ہے۔