اتوار ‘ 12؍ شوال المکرم 1440ھ‘ 16؍ جون 2019ء
بشکیک میں مودی تنہائی کا شکار رہے
کہتے ہیں ہر منش کو اپنے کرم کا پھل بھوگنا پڑتا ہے۔ سو دوسروں کے لئے بُرا سوچنے والے کو اس کی سزا ضرور ملتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کسی کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اس میں گر پڑتا ہے۔ نجانے مودی جی کو اوتار بننے کا خبط کیوں سوار ہو گیا ہے۔ وہ ہندو توا کو فروغ دے کر بھارت ورش میں دیگر اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر کے خود کو شری رام یا شری کرشن کا سچا بھگت ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد شاید اب خود کو اوتار سمجھنے لگے ہیں۔ مگر دنیا والے ان کی میٹھی میٹھی چائے پی کر کچھ دیر کے لئے چسکیاں لیتے ہوئے مودی کی چکنی چیڑی باتوں میں ضرور آتے ہیں۔ مگر جلد ہی ان کے کرتوت دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے ہیں۔ امریکہ بہادر نے جو بھارت کو خصوصی حیثیت دی تھی وہ ختم کر دی ہے۔ روس بھی بھارت کے عزائم دیکھ کر امریکی یاری میںآنکھیں پھیرنے کے بعد اس سے چوکنا ہو گیا اور اب پاکستان سے جھپیاں ڈال رہا ہے۔ بشکیک میں شنگھائی کانفرنس کے دوران مودی جی مرزا یار کی طرح تنہا تنہا کھوئے کھوئے یوں لگ رہے تھے جیسے کوئی اجنبی ہوں۔ اب تو دوست تک ان پر اعتبار نہیں کرتے۔ مکاری اور دھوکے کی سیاست زیادہ دیر کامیاب نہیں رہتی۔ یہ تنہائی اب کسی سانپ کی طرح مودی کو شنگھائی کانفرنس میں ڈستی رہے گی۔ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ انہوں نے بشکیک آنے کی غلطی کیوں کی۔ ابھی الیکشن کی جیت کا نشہ اترا نہیں تھا کہ عالمی رہنمائوں کی بے رخی کی اذیت اٹھانا پڑ رہی ہے جو جیت کے مزے سے کہیں زیادہ کڑوی ہے۔
٭…٭…٭
عمران خان دیندار آدمی ہیں ‘بس داڑھی نہیں رکھی‘ فواد چودھری
لگتا ہے فواد جی کا دل وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں نہیں لگ رہا۔ چاند کے مسئلے پر ان کی دینی معاملات میں رغبت کا احساس تو سب کو ہو گیا ہے۔ اب وہ خان صاحب کی جس طرح دینی مسلمہ حیثیت سب کو بتانا چاہتے ہیں۔ اس سے دینی طبقے بجائے خوش ہونے کے کہیں چاند کے مسئلہ کی طرح ناراض نہ ہو جائیں۔ کیونکہ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘۔ اب کہیں خان صاحب ان کی ذہنی سوجھ بوجھ اور فہم و ادراک سے متاثر ہو کر ایک بار پھر ان کی وزارت نہ تبدیل کر دیں ۔اور انہیں ان کی عقل و دانش کے مطابق وزارت مذہبی امور سونپ دیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہو گا۔ مذہبی رہنما تو ابھی خود فواد چودھری کے اجتہادی فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ کہیں وزارت مذہبی امور ملنے پر وہ سب فواد چودھری کے خلاف مشترکہ احتجاجی مورچہ نہ قائم کر لیں۔ خان صاحب کے امانت دار یا دیندار ہونے پر کسی کو یقین ہے اور کسی تو نہیں تو یہ ان کی ذاتی سوچ ہے۔ خدا جانے ہم کیوں کسی اچھے بھلے انسان کی جو سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے چھوڑ کر اپنے من پسند اشخاص کو صوفی اور ولی بنانے پر تل جاتے ہیں۔ عمران خان جیسے بھی ہیں عوام کو پسند ہیں‘ لوگ ان کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی مقبولیت کے لئے یہی کافی ہے۔ تسبیح تو وہ پہلے ہی لئے پھیرتے ہیں۔ اب فواد جی نے ان کے چہرے پر داڑھی ڈھونڈنا شروع کر دی ہے ۔ اب ان کو داڑھی رکھنے کے مشورے دینے والے ذرا خود بھی پہلے داڑھی رکھ کر خود کو تو دیندار بنائیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی جاری بجٹ پر بحث شروع نہ ہو سکی
آج تک یہی دیکھا اور سنا تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن والے حزب اقتدار کو تنگ کرتے ہیں مگر اب کچھ الٹا ہوتا نظر آتا ہے۔ عجیب تماشا لگا ہوا ہے۔ اپوزیشن تو اپوزیشن خود حکومتی وزرا اور ارکان اسمبلی بھی اس مقابلہ شورو غل میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں۔ بجٹ پیش ہو چکا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اس پر بحث ہوتی اسکی خامیاں دور کی جاتی اس میں عوام کے لئے فائدہ مند اصلاحات کی جاتیں۔ اسمبلی میں شور زرداری جی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے اور شہبازشریف کو ڈائس نہ دینے پر کیا جاتا ہے۔ پروڈکشن آرڈر بھی اچھا خاصہ نسخہ کیمیا بن کر سیاستدانوں کے ہاتھ آیا ہے۔ کرپشن یا کسی بھی الزام میں گرفتار رکن اسمبلی کو سپیکر قومی یا صوبائی اسمبلی اس آرڈر کے ذریعے حراست میں ہونے کے باوجود اجلاس میں طلب کرتے ہیں یوں موصوف قید میں بھی رہائی کے مزے لوٹتے ہیں۔ آنے جانے کے اخراجات ٹی اے ڈی اے بل اور تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔ اس پر زچ ہو کر ہمارے ایک قاری میجر (ر) نذیر اس رعایت کے خلاف عدالت میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تا کہ یہ رعایت ختم کرائی جا سکے۔ اگر یہی حالت رہی تو بہت جلد کافی ممبران اسمبلی کو خاص طور پر حزب اختلاف والوں کی ایک لمبی فہرست کو پروڈکشن آرڈر کے ذریعے اسمبلی کے اجلاس میں بلانا پڑے گا۔ جس سے ظاہر ہے شور شرابا میں مزید اضافہ تو ہو گا مگر بجٹ پر بحث پھر بھی نہیں ہو گی۔ اپوزیشن اور یہ حکمران دونوں یہی چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بجٹ میں جو کچھ ہے وہ آئی ایم ایف کا کیا دھرا ہے۔ بھلا یہ کون ہوتے ہیں اس پر بحث کرنے والے۔
٭…٭…٭
بھارتی ہٹ دھرمی سکھ یاتریوں کو جوڑ میلے پر پاکستان آنے سے روک دیا
یہ ہٹ دھرمی نہیں اس سے دو ہاتھ آگے کی چیز ہے۔ اس مقام پر شرم وحیا سب کچھ ختم ہو جاتی ہے۔ جوڑ میلے میں شرکت کے لئے پاکستان نے 200 سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کئے جو پاکستان آنا چاہتے تھے۔ پاکستان کی طرف سے ٹرین بھی ان یاتریوں کو لینے کے لئے بھیجی گئی مگر بھارت نے ٹرین کو بھی بارڈر کراس کرنے نہیں دیا نہ ہی یاتریوں کو جانے کی اجازت دی یوں پاکستانی حکام اپنے مہمانوں کا استقبال کرنے کی حسرت لئے واہگہ بارڈر پر کافی دیر سوکھتے رہے۔ بھارت کے اس رویئے پر وہاں موجود سکھ یاتریوں نے نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نریندر مودی ہائے ہائے اور مردہ باد کے نعرے لگائے۔ نعرے تو شیم شیم کے بھی لگنے چاہیے تھے۔ مگر بھارت سرکار کو ایسی کسی بات سے شرم نہیں آتی۔ وہ مذمت پروف نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔ جسے ہم بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والی پالیسی کہتے ہیں۔ امید ہے بھارت میں مقیم وہ سکھ جو ابھی تک بھارت کی عیارانہ پالیسیوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور بھارت ماتا کی چاکری میں خوشی محسوس کرتے ہیں وہ بھی گورو ارجن کے شہیدی دن پر جسے جوڑ میلہ کہا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس ہٹ دھرمی کا نوٹس لیں گے۔