کرپشن کے طریقے ختم کریں
مکرمی! ملک اور ملک سے باہر دولت کا فراوانی کے ہوس کا کیا عالم تھا؟ اس آئینے میں عوام کی حالتِ زار کی اصل وجہ دیکھی جا سکتی ہے؟ کرپشن کی ایک صورت وہ ہے جو حکومت پالیسی کے طور پر اختیار کئے ہوئے تھے۔ اسمیں نہ معلوم کس کس کو لائسنس ترقیاتی کوٹے پلاٹ، ملک اور ملک سے باہر سفر علاج کی مفت سہولتیں اور کیا کیا عنایات خسروانہ ہیں جن سے سرفراز کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ فی الفور ختم ہونا چاہیے یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ’’اے آر کا نیلس کو جب بھٹو صاحب نے ایک پلاٹ کے الاٹ کرنیکا خط لکھا تو انکا مختصر جواب یہ تھا کہ ’’شکریہ‘‘ کہ میں نے تو کسی پلاٹ کیلئے درخواست نہیں دی اور نہ مجھے اسکی کوئی ضرورت ہے۔بطور ممبرسینٹ پروفیسر خورشید اور قاضی حسین احمد مرحوم نے اپنی تنخواہ نہیں لی۔ اور اسکے ذریعے سینٹ میں لوئر سٹاف کیلئے فنڈز قائم کیا جو دوسرے اراکین کے تعاون سے سینٹ کے ملازمین کیلئے ایک بہت بڑا سہارا بن چکا ہے۔ ایک کروڑ سے زائد کا یہ ’’انڈو منٹ‘‘ فنڈ قائم ہو چکا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کو پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے جو استحقاقی سہولتیں میسر تھیں ان سے بھی استفادہ حاصل نہیں کیا اور نہ 21 سال کی ممبری کے دوران ایک بار بھی اپنے یا اپنے اہل خانہ کے علاج کیلئے ایک روپے کی دوایا علاج کی سہولت حاصل کی جن کے ہاتھ آلودگیوں سے لتھڑے ہیں۔ وہ آج عبرت کا نشان بن رہے ہیں۔(رائو محمد آسی ٹائون شپ لاہور)