بچپن میں سنا کرتے تھے کہ جتنی چادر ہو اتنے ہی پائوں پھیلائو۔ پھر ہمارے ہاں یہ محاورہ پہلے پرانا ہوا، اور پھر متروک ٹھہرا۔ پچاس برس پہلے میرے گائوں میں ایک پکا مکان اور دو کرسیاں ہوا کرتی تھیں۔ اب سبھی پکے ہیں اور ہر گھر میں صوفہ سیٹ لازم۔ یہی کچھ سرکاری کھاتے میں بھی ہے۔ ہمارے سرکاری دفاتر اور انکے سازوسامان کا مقابلہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اپنے فارن آفس کی سج دھج دیکھ کر فرنچ فارن آفس کا گماں گزرتا ہے۔ اور چھوٹے موٹے اہلکاروں شاہانہ انداز طبیعت کو بوجھل کر دیتا ہے۔ چادر کی پیمائش کریں تو وہ 60 ملین ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں برآمدات محض 22 ملین ڈالر۔ یعنی کمائی 22 اور خرچہ 60۔ ہم اپنے انفراسٹرکچر پر فخر کرتے ہیں۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ہماری موٹرویز یورپین موٹرویز کو شرماتی ہیں۔ مگر یہ نہیں بتاتے کہ سب ادھار کے بدلے رہن پڑی ہیں۔ بے شک ننگے پائوں اور محض شرٹس میں ملبوس شخص کو برینڈڈ ٹائی اور گاگلز زیب نہیں دیتے۔ پاکستانیو! عالمی برادری میں وقار چاہتے ہو‘ تو یہ منظر نامہ بدلنا ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024