عید سال میں دو بار آتی ہے اور ہر عید پر لوگ اپنے اپنے پیاروں اور عزیزوں کو ’’عیدی‘‘پہنچانے کیلئے اپنے شہر میں ایک حصے سے دوسرے حصے تک کا سفر کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک بھی سفر کرنا پڑتا ہے ۔ عید بُنیادی طور پر خوشی اور طمانیت کا اِحساس لے کر آتی ہے۔ اسی اِحساس کے ساتھ مجھے بھی اپنے ایک ’’پیارے‘‘کو عید پہنچانے کیلئے عید سے پہلے سفر کرنا پڑا ۔ آپ لاہور کی سڑکوں پر سفر کریں تو آپ کو رکشہ، بس اور ٹرک کے پیچھے مختلف ’’اقوال‘‘اور معنی خیز اشعار پڑھنے کو ضرور ملتے ہیں۔ میری گاڑی سے آگے جانے والے ایک رکشہ کے پیچھے یہ شعر لکھا ہوا تھا:
؎تِرا چہرہ ہے ، جب سے آنکھوں میں
میری آنکھوں سے لوگ جلتے ہیں
اس شعر کو پڑھتے ہی میں سوچنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تو ہمیں بہترین فطرت کے ساتھ اس دُنیا میں بھیجتا ہے مگر ہم اپنے اندر اپنی فطرتِ ثا نیہ کی وجہ سے ایسی تبدیلیاں پیدا کر لیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ دوسروں سے حسد کرنے کی عادت ہی کو لے لیجئے ، کچھ لوگوں کو بلاوجہ حسد ہونے لگتا ہے ۔ اُن کا کوئی تعلق اور واسطہ کسی سے ہو نہ ہو وہ اپنی فطرت اور عادت سے مجبور حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ کسی کو ذرا خوش دیکھتے ہیں تو چاہے اُنہیں کوئی نقصان ہو یا نہ ہو ، کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو ، خوام خواہ حسد اور جلن میں مبتلا ہو کر اپنی اچھی بھلی زندگی میں دُکھ اور محرومی کا احساس شامل کر لیتے ہیں ۔ حالاں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوتی، پھر بھی حسد کے مارے لوگ یہ ظلم اور زیادتی اپنے اوپر آپ کر لیتے ہیں یعنی اپنے دشمن آپ بن جاتے ہیں۔لوگ حسد کسی کو خوش دیکھ کر ہی نہیں، دوسروں کو خوش حال دیکھ کر بھی کُڑ ھتے اور جلتے رہتے ہیں۔ اگر معاملہ دو پیار کرنے والوں کا ہو تو حسد کے عادی لوگ اپنے ذہن میں عجیب و غریب خیالات کو جمع کر کے دوسروں کے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔ پھر وہ کسی وجہ اور جواز کے بغیر اُن کے دشمن بھی بن جاتے ہیں ۔ رکشہ کے پیچھے لکھے ہوئے شعر نے ایسے ہی لوگوں کی یاد کو تازہ کر دیا۔ اکثر اوقات لوگ حسد اپنی پسند اور نا پسند کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ اگر کسی سے کوئی ناراضی ہوتو اس کی ہر بات کو حسد کے حوالے سے لیں گے۔ اگر کسی کو ویسے ہی ناپسند کرتے ہیں تو حسد کرنا لازم سمجھنے لگتے ہیں حالاںکہ حسد نہ کرنے کی اسلام میں سخت تاکید کی گئی ہے اور حسد کے نقصانات بھی ہم پر واضح ہیں، اس کے باوجود حسد کرنے والے اپنی عادت سے مجبور یہ غلطی کرتے رہتے ہیں۔
حسد کی آگ میں خود ہی جل کر اپنا نقصان کرتے ہیں۔ حالاں کہ ذرا سی فراخ دلی پیدا کر لی جائے اور ذہن کو بھٹکنے سے بچالیا جائے تو حسد کی عادت سے نجات پائی جا سکتی ہے ۔ دیکھا جائے تو محبت کے معاملات میں تو ہمیں بالکل دوسروں سے حسد نہیں کرنا چاہیے بلکہ محبت کا جواب محبت سے دینے کی عادت اپنانا چاہیے کہ محبت کے پیغام کو عام ہونا چاہیے، محبت کے جذبے میں بڑی طاقت ہوتی ہے ، یہ دلوں کو فتح کر لیتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ محبت میں سچائی ، خلوص اور وفا کی کمی نہ ہو۔ ویسے بھی کچھ لوگ دل کو بہت پیارے لگتے ہیں ۔ اِن لوگوں سے اتنا پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے کہ اپنا نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا سا لگتا ہے ۔ اُن سے متعلق ہر چیز پیاری لگتی ہے۔ اِن لوگوں کی باتیں، خوبصورت یادوں کی صورت میں دل و دماغ میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ جب تک ایسے ’’پیارے اور خلوص بھرے‘‘لوگوں سے تعلق قائم رہتا ہے تو زندگی خوش گوار رہتی ہے ۔ وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ، انسان چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور دُکھوں کی پروا نہیں کرتا ، لیکن جب یہی پیارے لوگ بچھڑجاتے ہیں، ہم سے جُدا ہو جاتے ہیں تو زندگی کی بہاروں پر خزاں کے موسم چھا جاتے ہیں۔ خوش گوار یادیں دل کو انجانا سا درد دیتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تکلیفیںبھی کسی بڑے صدمے سے کم نہیں ہوتیں۔ دن تو دن رات کا ٹنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا ۔ ان پیارے لوگوں کے چہرے، اُن کی مسکراہٹیں،اُن کے ساتھ گزارے ہوئے خوبصورت لمحات جب یاد آتے ہیں تو آنکھوں سے بے اختیار آنسوئوں کی جھڑی شروع ہو جاتی ہے ۔ اِن پیارے لوگوں کی جدائی میں دل اُداس رہتا ہے ۔ دماغ پر عجیب سا بوجھ سوار ہو جاتا ہے اورد ل کی عجیب سی حالت ہو جاتی ہے ۔ کاش ایسے پیارے لوگ کبھی جدانہ ہو ا کریں۔بات محبت کی ہو تو جذبہ محبت کی قدر ہر حالت میں کرنی چاہیے۔ اس پیغام کو اہمیت دینی چاہیے اور اسی طرح محبت کرنے والوں سے حسد کی بجائے ان سے پیار اور وسعت قلبی سے پیش آنا چاہیے، اُنکی کامیابی کیلئے دُعا کرنی چاہیے اور یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اِس دنیا کا وجود ’’جذ بہء محبت‘‘سے قائم ہے جس دن اس دُنیا سے محبت ختم ہو گئی ، سمجھ لیں سب کچھ ختم ہو گیا اس لئے ہمیشہ حسد کو چھوڑ کر محبت کو اپنا نا چاہیے۔ اپنے اندر، محبت اور شفقت کے جذبات کو فروغ دینا چاہیے۔حسد کا عالم تو یہ ہو چکا ہے کہ دو افراد آپس میں اگر پیارومحبت سے ملتے ہیں یا ایک دوسرے سے بہت عزت اور احترام کے ساتھ پیش آتے ہیںتو کچھ لوگ اس پر بھی حسد کرتے ہیں۔ گویا ایسے لوگ اپنی عادت سے محبور ہوں ایسے لوگوں کا کیا انجام ہوتا ہے!!! کبھی ہم اِس پر غور کریں تو لوگ حسد کرنا چھوڑ دیں ۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہیں جو حسد میں مبتلا نہیں اور ہر معاملے میں مثبت پہلو تلاش کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوںکو جب حسد کرنیوالے بہت ستاتے ہیںتو پھر یہ شعر بہت یاد آتا ہے اور خود بہ خود زبان پر آجاتا ہے یا دل ہی دل میں گنگنانے لگتے ہیں۔
؎ پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024