اچھا حکمران اپنے گرد بیٹھے درباریوں کی رپورٹ کی بجائے گلی کوچوں کے چہروں اور سلوگوں کو پڑھتا ہے۔ سردار عثمان بزدار گلی کوچوں میں موجود چہروں کو پڑھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ ’’تحت لاہور‘‘ جیسے تکلیف دہ طعنے کے حامل شہر کے اندر بلکہ مرکز میں رہنے والے لوگوں کا کیا حال ہے۔ یہ ہم سردار صاحب کے سامنے رکھتے ہیں۔ لاہور کا سرکاری تعلیمی، کاروباری اور صحت کے مسائل کے حوالے سے مرکز کالج سے لے کر ضلع کچہری، انار کلی، پنجاب یونیورسٹی سول سیکرٹریٹ، آئی جی آفس، میو ہسپتال اور سول سے سیشن اور ہائی کورٹ کا تین سے چار کلو میٹر کا علاقہ ہے جیسے معمولات زندگی نمٹانے کے لئے روزانہ لاکھوں لوگ اپنے قدموں کے نیچے رکھتے ہیں۔ اب جب سے احتساب کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور تقریباً روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر کسی نہ کسی ’’مقبول سابق راہنما کی احتساب عدالت میں ہائی کورٹ میں پیشی ہوتی ہے تو ٹریفک پولیس ضلعی انتظامیہ کی ہدایت پر اس پورے علاقے کو بند کر دیتی ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ احتساب عدالت اس علاقے کے وسط میں سول سیکرٹریٹ کے پاس جوڈیشل کمپلکس میں ہے۔ ماشااللہ احتساب عدالت میں پیش ہونے والے ’’راہنما‘‘ بھی اپنی عزت افزائی کے لئے اپنے یاروں کو بلاتے ہیں۔ سینکڑوں پولیس اہلکار پورے علاقے میں پھیلے رہتے ہیں۔ خاردار تاروں سے تمام سڑکیں بند ہوتی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں خلق خدا جس کا کوئی قصور نہیں دن بھر عذاب سے دوچار رہتی ہے۔ کیا کسی خفیہ والے نے اگر وہ واقعہ حکومت اور عوام کا ہمدرد ہے، اس عذاب جیسی صورتحال سے عوامی وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا ہے؟ ہرگز نہیں صرف ایک احتساب عدالت کی لوکیشن سے روزانہ ہزاروں لیٹر زائد پٹرول، علاقہ بھر میں سسک سسک کر پھنس پھنس کر چلنے والی ٹریفک کی نذر ہوتا ہے۔ وقت تو شاید ہمارے ہاں قیمتی ہی نہیں رہا۔ سخت گرمی میں لوگ تڑپ تڑپ کر وقت گزارتے ہیں۔ بدانتظامی اور کسی مسئلے کا فوری حل نہ نکالنے کی یہی ایک مثال نہیں۔ یادش بخیر سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے شاہراہ قائداعظم سے رنگ روڈ (جلو موڑ کی طرف) تک نہر کے دونوں طرف سڑکوں کو کشادہ کرنے کا حکم دیا۔ اربوں روپے کا پروجیکٹ تھا جس میں طویل بینجنگ انڈر پاس (ڈبل ریلوے ٹریک کے پاس) بھی شامل تھا۔ سڑکوں کی کشادگی تو ہو گئی۔ مگر مغلپورہ سے رنگ روڈ تک پانچ پل (لال پل، نواں پل، فتح گڑھ پل وغیرہ) گرا دیئے گئے۔ ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر یہ بڑے بڑے پل درجنوں آبادیوں کی ٹریفک کو سامنے رکھ کر بناتے گئے تھے۔ ان پلوں کی بجائے اپنے طویل فاصلے میں صرف دو یو ٹرن بنائے گئے جن میں ایک پل (نواں پل کی جگہ) تو عملاً بیکار ہے کیونکہ اس سے گزرنے والی ساری ٹریفک کبھی سروس روڈ اور کبھی غلط واپسی کے باعث مستقل درد سر اور بنانے والوں کے لئے ’’دعا‘‘ کا ذریعہ بنی رہتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ کسی انجینئر، سروے کرنے والے اور خود شہری انتظامیہ کے متعلقہ ادارے کے افسران نے اس بات کو پیش نظر ہی نہیں رکھا کہ نہر کے دونوں طرف درجنوں گنجاں آباد بستیوں کے لوگ شہر کی طرف اور رنگ روڈ کی طرف کیسے نکلیں گے۔ روحیل اصغر سے لے کر ملک وحید تک کسی عوامی نمائندے نے بھی لوگوں کے دکھ درد کی نمائندگی نہیں کی۔ نہ جانے اس غلطی کی اصلاح کون سی حکومت کب کرے گی۔ بات احتساب عدالت کے باعث ہونے والے ٹریفک بدنظمی سے شروع ہوتی تھی۔ کیا لاہور میں ٹریفک کے منتظم اعلیٰ نے متعلقہ اداروں تک عوام کے دکھ درد پر بنی رپورٹ بھیجی ہے کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ احتساب عدالت جلو موڑ کے پاس یا کیس ایسی کھلی جگہ پر منتقل کی جائے جہاں ملزمان اور متعلقہ لوگوں کی آمد ورفت کے باعث لاکھوں کی تعداد میں باقی مخلوق خدا سزا نہ بھگتے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے اردگرد کا ماحول درباریوں والا نہیں۔ وہ خود بھی شاہانہ مزاج نہیں رکھتے۔ ایسے میں اب تک ان تک دکھی چہروں کی رپورٹ پہنچ جانا چاہیے تھی۔ لاہور میں ایک موریہ دو موریہ پل پر ٹریفک کے عذاب سمیت اور بھی بہت سے مقامات آہ و فغان ہیں مگر ہم نے آج لاکھ کے دو حصوں کے دکھی چہروں کی رپورٹ ان کے نام کی ہے۔ احتساب عدالت والا کام تو بہت آسان ہے۔ صرف ایک عدالت کی لوکیشن تبدیل کرنے سے لاہور کے مرکزی حصے کا بخار اتر سکتا ہے اور دوسرا مغلپورہ انڈر پاس سے جلو موڑ کی طرف رنگ روڈ تک بنائے گئے دو یوٹرن ختم کر کے تین یو ٹرن (ایک پرانے لال پل اور نیا پل کے درمیان، دوسرا پرانے نیا پل سے فتح گڑھ پل کے درمیان اور تیسرا رنگ روڈ سے پہلے بنا دیئے جائیں تو اس پورے علاقے کی دکھی مخلوق سکھ کا سانس لے گی اور سابقہ حکومت نے جو خرابی پیدا کی ہے وہ دور ہو جائے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024