عید الفطر....فضائل اور اسلا م کا تصور عید
عید الفطر کے فضائل:
عید سعید کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے روایت کیا ہے کہ جب عیدالفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اسے ” لیلة الجائزة“ یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں“اے امت محمد! (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم! آج کے روز اس (نماز عید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرما¶ں گا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطا¶ں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جا¶ گے، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“ (الترغیب والترہیب)
عید الفطر کے دن جب مسلمان عید گاہ میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
”یہ ہیں میرے وہ بندے جو عبادت میں لگے ہوئے ہیں اور بتاو¿ کہ جو مزدور اپنا کام پورا کر لے اس کا کیا صلہ ملنا چاہیے؟ جواب میں فرشتے فرماتے ہیں کہ جو مزدور اپنا کام پورا کر لے اس کا صلہ یہ ہے کہ اسے اس کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔ اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے ہیں، میں نے رمضان کے مہینے میں ان کے ذمے ایک کام لگایا تھا کہ روزہ رکھیں اور میری خاطر کھانا پینا چھوڑ دیں اور اپنی خواہشات کو ترک کر دیں، آج انہوں نے اپنا فریضہ مکمل کر دیا۔ اب یہ اس میدان کے اندر جمع ہیں اور مجھ سے دعا مانگ رہے ہیں۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں، اپنے علو مکان کی قسم کھاتا ہوں کہ آج میںسب کی دعاو?ں کو قبول کروں گا اور میں ان گناہوں کی مغفرت کروں گا اور ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دوں گا۔“
چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ:
”جب روزہ دار عید گاہ سے واپس جاتے ہیں تو اس حالت میں جاتے ہیں کہ ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔“
عید کیسے منائیں :
عید الفطر کا دن ہماری زندگی کا سب سے اہم دن ہے اور یہ سال میں ایک بار آتا ہے،اس لئے ہماری کوشش ہو کہ اس مبارک دن کو احکام خداوندی کی پاسداری کرتے ہوئے لہو و لعب سے پاک ہوکر دن گزارے، اہل و عیال کے ضروریات کی چیزوں پر فراخ دلی سے خرچ کریں، نہا دھو کر جو کپڑا سب سے اچھا ہو اسے زیب تن کریں، خوشبو لگائیں، اچھا سے اچھا پہنیں، کھائیں، عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے وسیع قلب اور خوش دلی سے ملیں، عید کے دن کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت متبرک والا دن قرار دیا ہے،۔
مکاشفة القلوب میں علامہ غزالی رحمة اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں حضرت سیدنا وہب بن منبہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی عید آتی ہے تو شیطان چلا چلا کر روتا ہے، اس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہو کر پوچھتے ہیں، اے آقا! آپ کیوں غضبناک اور اداس ہو رہے ہیں، وہ کہتا ہے ہائے افسوس اللہ تعالی نے آج کے دن امت محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بخش دیا ہے، لہٰذا تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کردو۔آپ ذرا غور کریں کہ شیطان کس قدر مسلمانوں کو لذت نفسانی میں مشغول کرنے کیلئے پریشان رہتا ہے، مگر آپ اور ہم اس بات کو بھول کر نہ جانے عید کے دن خوشی کا اظہار کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں، اور بہت سے ناجائز کام کرنے لگ جاتے ہیں، جس کی شریعت کبھی اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ عید کے دن عبادات و حسنات کی کثرت کریں اور اللہ کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں، رقص و سرور کی محفلوں سے دور رہیں، اس کی طرف نظر بھی نہ کریں، ناچ گانوں اور فلمی ڈراموں کا اہتمام ہرگز ہرگز نہ کریں۔
عید کے دن لوگ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کاشانہءخلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں، لوگوں نے تعجب سے عرض کیا، یا امیر المومین! آج تو عید کا دن ہے، آج تو شادمانی و مسرت اور خوشی منانے کا دن ہے، یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟
آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا©:” ھذا یوم العید وھذا یوم الوعید “اے لوگو! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے، آج جس کے نماز روزہ مقبول ہوگئے، بلاشبہ اس کیلئے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز روزہ کو مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لئے تو آج وعید ہی کا دن ہے اور میں تو اس خوب سے رو رہا ہوں کہ آہ! انا لا ادری ام من المقبولین ام من المطرودین یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں۔
ذرا غور کیجئے اور اپنے دل پرہاتھ رکھ کر سوچئے! یہ وہی فاروق اعظم ہیں جن کو مالک جنت تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات
ظاہری ہی میں جنت کی بشارت دی تھی، پھر بھی خشیت الٰہی کا یہ حال کہ صرف یہ سوچ کر تھرا رہے ہیں کہ نہ معلوم میری رمضان المبارک کی عبادتیں قبول ہوئیں یا نہیں۔
حضور سیدی سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں،“لوگ کہہ رہے ہیں کل عید ہے، کل عید ہے اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن اس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ لے کر گیا میرے لئے تو وہی دن عید کا دن ہوگا۔