تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
میرے دور میں لوگوں کو بنکوں سے گاڑیاں ملیں, لاکھوں موٹرسائیکلیں بکیں ، گھر گھر میں اے سی چل رہے ہیں ، فیکٹریاں ، کارخانے گجائش سے زیادہ آرڈر لے رہے ہیں ۔ سرکار ی اورنجی اداروں میں فنڈز کی کمی نہیں ، پرائیویٹ ٹی وی اور ریڈیو چینلز کو لائسنس دیے گئے ۔تقریباً 40منٹ کی پرویز مشرف کی تقریر جو ٹی وی چینلز پر ان کی رخصتی پر(اقتدار سے)آخری بار نشر کی گئی ،جسے مجھ سمیت ہال میں موجود کم وبیش 100لوگ سن رہے تھے۔ کچھ کو بیٹھنے کی جگہ ملی اور کچھ کھڑے تھے۔
تقریر کے اس حصے میں جب پرویز مشرف نے اپنے اچھے کام اور کارنامے بیان کرنے کے بعد کہا کہ میں صدارت چھوڑ رہا ہوں اور عوام مجھے یاد کرے گی۔ تو سب سے پہلے میرے منہ سے باآواز بلند نکلا ©” جا اوے عوام تجھے کہاں یادکرے گی“ وہاں موجود سبھی لوگوں کے کچھ ایسے ہی جذبات تھے۔ پھر وقت گزرتا گیا اور پرویز مشرف یاد آتا گیا جس کا سہرا پاکستان کی عوامی جمہوری حکومت اوراس وقت کی مقبول سیاسی جماعت پی پی پی کو جاتا ہے ۔
پی پی کے دورنے عوام کی وہ کھال اتاری کہ عوام کی چیخیں نکال دیں۔ اشیاءخورد نوش مہنگی ، اشیاءتعیش عوام کی پہنچ سے دور ، پٹرول ، ڈیزل ، مٹی کا تیل مہنگے سے مہنگے ہوتے چلے گے ۔ ۔ اور جنرل مشرف یاد آتے چلے گئے اوراس وقت کے وزیر خزانہ ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک پر ذمہ داری ڈالنے سے پہلے گزشتہ حکومت کو عوام کی بدحالی کا ذمہ دار گردانتے رہے ۔ (جیسا کہ حکمرانی کی روایت ہے) سی این جی سٹیشن پر میلوں لمبی گاڑیوں کی قطاروں میں گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرنا ایک خوفناک خواب نہیں تو اور کیاتھا؟ اب تو جنرل ایوب خان بھی
یا دآنے لگے جب آصف علی زرداری نے الیکشن 2008سے پہلے 27دسمبر 2007کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پرپہلی میڈیا ٹاک میں اپنے معصوم بچوں کے ساتھ کہا تھا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ اور پاکستان کھپے ، پاکستان کھپے، پاکستان کھپے، تو مجھ سمیت سارے پاکستانیوں نے یہی سمجھا تھا۔۔ کہ آصف علی زرداری کااشارہ آمریت کے حوالے سے تھا۔۔کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے آمریت کے مقابلے میں ۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ انتقام آمریت سے نہیں عوام سے لیا جانا تھا۔اور پاکستان کھپے سے مراد ہم نے یہ لی کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہے۔۔لیکن شاید زرداری صاحب پنجابی والا کھپے کہے رہے تھے۔ اور ان کی خدا نے سن لی اور پرویز مشرف کے بعد پاکستان ابھی تک کھپ رہاہے۔ شیخ سعدی نے ایک حکایت لکھی....ایک بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ کشتی میں سفر کررہا تھا ۔ جن میں ایک ایسا شخص بھی تھا جودریا کے ڈر سے رونے لگا بادشاہ کو بہت ناگواری ہوئی کیونکہ وہ شخص کسی طرح بھی چپ نہیں کررہا تھا۔ ایک وزیر باتدبیر نے پوچھا بادشاہ سلامت اگراجازت ہو تو میں اس کو خاموش کرواوں؟بادشاہ نے اجازت دی وزیر نے محافظوں سے کہا کہ اس شخص کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو جب اس شخص کو دریا میں پھینکا گیا تو چند غوطے کھانے کے بعد اس کو دوبارہ کشتی میں سوار کردیا گیا وہ چپ کرکے کونے میں بیٹھ گیا بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ یہ کیاماجراہے ؟ وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ شخص کشتی کی عافیت سے واقف نہیں تھا جب اس کو دریا کے غوطے پڑے تو اس کو موت سامنے نظر آئی تو اب اس کو کشتی بہت محفوظ مقام لگ رہی ہے۔
ایسا ہی عوام کے ساتھ ہوتا ہے ان کو آمریت کی عافیت کا اندازہ ایسی نام نہاد جمہوریت کا تجربہ کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میاں نواز شریف کے بعد نہ ہو جولوگ تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں (تبدیلی سے مراد صرف عمران خان کی حکومت ہے)اب پنجاب میں قومی اسمبلی کی واضح اکثریت اگر عمران خان کو نہ مل سکی مرکز میں حکومت بنانے کے لیے یا اسے برتری نہ دلوائی جاسکی ایجنسیوں کی طرف سے تو آپ لوگوں نے سوچا ہے کہ کیا سین ہو گا ؟ ایک مخلوط حکومت جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے چیلنج نہ ہو
تجھے کھو دیا ہم نے پانے کے بعد
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
میں نواز شریف فیملی کا حامی نہیں ہوں ان لوگوں نے بہت کمیشن کھا یا ہوگا اس میں شک نہیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اتناکام پچھلے چالیس سال میں بھی ہوا؟ ان کاموں کا کریڈٹ نواز شریف کو نہ دینا بھی صحافتی بدیانتی ہوگی۔
بہرحال عوام نے دونوں مقبول پارٹیوں کو تین تین بار اقتدار دے کر دیکھ لیا ۔۔ عوام کی تقدیر بدلنے والے اقدامات نہیں ہوئے خاص طور پر تعلیم ، صحت ، انصاف عوام تک نہیں پہنچا عوام بدحال سے بدحال ہوتی چلی گئی اگر کسی کی تقدیر بدلی تو وہ صرف حکمرانوں کے خاندان اوران کے حواریوں کی۔اس ملک کو ان دو پارٹیوں سے بچانے کے لیے نجات دہندہ ملا ہے عمران خان کی شکل میں۔۔ تو کیوں نااسے ایک بار مرکزی حکومت میں آزما لیا جائے۔۔ کم از کم اس کے وزراءکرپشن کے طریقے سیکھنے کے لیے دو سے تین سال لگا دیں گے جبکہ پی پی پی اور نون لیگ اقتدار کے پہلے دن سے ہی اپنے تجربے کی بنا ءپر جانتے ہیں بنکوں سے پیسہ کیسے نکلوانا ہے کون سی پالیساں بنانی ہیں جن سے ان کے کارخانوں کو فائدہ پہنچے ۔ ملک میں صحیح معنوںمیں تبدیلی لانے کی زیادہ ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جوالیکشن والے دن سوئے رہتے ہیں۔۔ یاٹی وی پر انتخابی رزلٹ دیکھ کر انجوائے کرتے ہی اورپھر بعد میں حکمرانوںکو مطعون کرتے ہیں
کہاجاتا ہے کہ پی پی پی جلسوںکی جماعت ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن انتخابات کی ۔ مسلم لیگ ن کا ہر کارکن ووٹرکو گھرسے نکال کر پولنگ سٹیشن پہنچاتا ہے۔۔ اور الیکشن میں برتری حاصل کرتا ہے۔۔ جبکہ پی پی پی والے دیہاتوں اور مضافاتی علاقوں سے ۔۔ووٹرکو پولنگ اسٹیشن پہنچانے میں سستی کرتے ہیں جس کی وجہ سے انتخابی نتائج بدل جاتے ہیں۔۔ خیر پی پی پی تو قصہ پارینہ ہوچکی ۔ پی ٹی آئی کوانتخابی دن اپنی ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا ہوگا۔ اوراپنے ووٹر کو صبح سویرے سے ہی ۔۔پولنگ بوتھ تک لانا پڑے گا۔ تبھی ایک نیا پاکستان بن سکے گا ۔