شجاعت بخاری قتل کی بلاتاخیر تحقیقات کی ضرورت ہے‘ مظالم کا خاتمہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ہی مضمر ہے
مقبوضہ کشمیر: انسانی حقوق کی پامالی پر اقوام متحدہ کا کمیشن بنانے کا مطالبہ‘ رائزنگ کشمیر کے چیف ایڈیٹر کا بہیمانہ قتل
اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مبنی پہلی رپورٹ جاری کردی، مقبوضہ کشمیر کے باسی گزشتہ7 دہائیوں سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں، اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن بنانے کی تجویز دے دی، بھارتی فوج کو مقبوضہ وادی میں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ وادی میں مظاہرین پر طاقت کا شدید استعمال کیا جارہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں سب سے خطرناک ہتھیار پیلیٹ گن کا استعمال کیاگیا، مظفروانی کی شہادت کے بعد جولائی 2016 سے اب تک وادی میں 145 معصوم کشمیری شہید ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 28 برسوں سے آرمڈ فورسز خصوصی ایکٹ نافذ ہے، اس قانون کے باعث اب تک کسی ایک بھی بھارتی فوجی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کامقدمہ نہیں چل سکا۔ انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر زید رادالحسین نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے بارے میں جامع بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ دریں اثناء بھارت کے آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ہم جتنے لوگ مارتے ہیں ان سے زیادہ تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جنرل راوت نے ایک بیان میں کہا مقبوضہ کشمیر میں اس سلسلے کو روکنے کیلئے کچھ کرنا ضروری ہے ہم دراندازی پر قابو پاسکتے ہیں لیکن کشمیری نوجوانوں پر نہیں۔ اس کیلئے مذاکرات بہت ضروری ہیں،کوشش کر کے دیکھا جائے، مقبوضہ کشمیر میں امن کو ایک موقع ملنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر بدترین مظالم کے حوالے سے رپورٹ پہلی بار سامنے آئی ہے۔ بھارت نے کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے ستم چھپانے کیلئے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مقبوضہ وادی میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس نے تو دہلی میں اقوام متحدہ کے مبصرین کا دفتر بھی بند کردیا ہے۔ مسلمانوں پر بھارت کی بربریت صرف مقبوضہ وادی تک ہی محدود نہیں‘ بھارت کے اندر بھی مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ اور ناطقہ بند کرنے کی مذموم سازشیں کی جاتی ہیں۔ انکی عبادت گاہوں کو عبادت گزاروں سمیت جلا دیا جاتا ہے‘ گوشت کے بڑے برآمد کنندگان ہندو ساہوکار ہیں جبکہ ذبیحہ کا الزام لگا کر مسلمان گھرانے اڑاکے رکھ دیئے جاتے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں پر بہیمانہ تشدد کی تازہ مثال گزشتہ ہفتے کے آخری دنوں مسلمانوں سمیت آٹھ افراد کو سرعام ڈنڈے مار کر قتل کردیا گیا جس کا اعتراف حکام نے کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات پر قابو پانے کی کوشش کرینگے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے بے دریغ استعمال اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لینے کیلئے کہا گیا ہے۔ رپورٹ میں۔ گزشتہ تیس سال کے دوران فوج یا مسلح شدت پسندوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی جو شہادتیں ہوئی ہیں‘ انکی ازسرنو تحقیقات‘ قتل اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوںاور دیگر جرائم میں ملوث فوجی و نیم فوجی اہلکاروںکے مواخذے میں حائل قوانین کے خاتمہ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ایسا مطالبہ کس سے کیا جارہا ہے؟ اس بھارت سے جو اس سب کا ذمہ دار ہے۔ اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے…؎
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
جب اقوام متحدہ پر بھارت کی مقبوضہ وادی میں ریاستی بربریت ثابت ہوچکی ہے تو خود اس کا نوٹس لے۔ نہتے کشمیریوں کیخلاف رائج انسانیت سوز قوانین کے خاتمے کیلئے چارہ کرے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوگا۔ بھارت ہی کے ایماء پر اقوام متحدہ نے پاکستان میں کچھ لوگوں پر پابندیاں لگوائیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم کرنیوالے شدت پسند گروپوں اور فوجی اہلکاروں کیخلاف ایکشن کیوں نہیں ہو سکتا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کی عمومی ستائش کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ مظلوم اور مقہور کشمیریوں کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے بارے میں بین الاقوامی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کرنے کیلئے غور خوش آئند ہے۔ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے محض الزامات نہیں‘ بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جس پر اظہار اقوام متحدہ سے ملحق حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی تنظیمیں بھی متفقہ طور پر مختلف اوقات میںرپورٹیں جاری کرچکی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی مقبوضہ کشمیر میں ہوتی ہے۔ اس پر بین الاقوامی کمیشن ضرور قائم ہونا چاہیے۔ اگر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو جائے تو ایسے کمیشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اقوام متحدہ کی جس رپورٹ میں بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی بات کی گئی ہے‘ اس رپورٹ پر بھارت آگ بگولہ ہے۔ اس رپورٹ پر جانبداری کا الزام لگایا اور رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کے اس رپورٹ پر سخ پا ہونے کا انداز اس سفاکانہ اقدام سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزنامہ رائزنگ کشمیر کے چیف ایڈیٹر شجاعت بخاری نے یہ رپورٹ سوشل میڈیا پر ڈالی تو انہیں بہیمانہ طریقے سے شہید کردیا گیا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق شجاعت بخاری پر یہ حملہ سرینگر کی پریس کالونی میں انکے آفس کے باہر ہوا۔ حملے میں ان کو کئی گولیاں لگیں اور 2 سکیورٹی گارڈ بھی زخمی ہوئے۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں بخاری اور انکے ایک محافظ کی موت ہو گئی جبکہ دوسرے کی حالت نازک ہے۔ شجاعت بخاری زندگی کی آخری سانس تک دیانتداری اور صحافتی اصولوں کے تحت جرأت مندی سے اپنے فرائض ادا اور بھارتی سفاک فورسز کے نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم آشکار کرتے رہے۔ انکی شہادت پر وسیع پیمانے پر مذمت کی جارہی ہے۔ پاکستان اور عالمی صحافتی تنظیموں نے اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیکر بلاتاخیر غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے مجرموں کیخلاف سخت کارروائی کا تقاضا کیا ہے۔ محبوبہ مفتی‘ عمر عبداللہ حتیٰ کہ راہول گاندھی بھی اس قتل پر خاموش نہ رہ سکے۔ پاکستان کو ایک معصوم صحافی کا خون رائیگان نہیں جانے دیا جانا چاہیے۔ اقوام عالم پر اس بہیمانہ قتل کیخلاف تحقیقات کیلئے سفارتکاری کو فعال اور متحرک بناتے ہوئے اس کیخلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے۔
شجاعت بخاری کے قتل پر واشنگٹن پوسٹ میں پرکھاوت نے لکھا ہے کہ اس قتل سے دو باتوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اول جلتے کشمیر میں حالات اندھے غار کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جہاں سے واپسی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ دوسرے آج بھارت میں کسی بھی دور کے مقابلے میں صحافی ہونا خطرناک ہے۔ اس قتل کو بجا طور پر ریاستی دہشت گردی کہا جاسکتا ہے۔ اگر ہم نے اس قتل پر آواز نہ اٹھائی تو جلد وہاں دہشت گردی کے سوا کوئی آواز بلند نہیں ہوگی۔ برکھادت نے مزید کہا ہے کہ جس جمہوریت میں صحافی خطرے میں ہوں‘ وہ جمہوریت خود خطرے میں ہوتی ہے۔
برہان مظفروانی کی جولائی 2016ء میں بھارتی فوجی گماشتوں نے ہاتھوں شہادت کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں نئی جان پڑی ہے۔ وہ بھارتی فورسز کے ظلم و جبر کا بے جگری سے مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کیخلاف پیلٹ گنوں اور کیمیائی اسلحے کا بے دریغ استعمال بھارت کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔ بپھرے ہوئے کشمیری جدید اسلحہ سے لیس سات لاکھ فوجیوں کیلئے چیلنج بن چکے ہیں۔ اسی جذبے کے ساتھ انکی جدوجہد جاری رہی تو آزادی کی منزل قریب آسکتی ہے۔ بھارت کیلئے اسکے آرمی چیف کا بیان لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے جس میں انہوں نے کشمیری نوجوانوں پر قابو پانے میں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حکومت پر مذاکرات کیلئے زور دیا ہے۔ یقیناً مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات میں ہی مضمر ہے۔ بھارت اس بات کو جتنا جلد سمجھ جائے بہتر ہے ورنہ کشمیری اپنی آزادی کے کاز کیلئے جانیں نچھاور کررہے ہیں‘ وہ کرتے رہیں گے جبکہ بھارتی فوجی کتے کی موت مر رہے ہیں۔ وہ ایسی موت مرتے رہیں گے۔ آخر بھارت کتنے فوجیوں کو مروا کر ہوش کے ناخن لے گا۔