ہفتہ‘ یکم شوال 1439 ھ ‘ 16؍ جون 2018ء
پاکستان میں شوال کا چاند نظر نہیں آیا، عیدالفطر ہفتہ کو ہوگی، رویت ہلال کمیٹی
محکمہ موسمیات نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ پاکستان میں چاند کی عمر 39 منٹ سے بھی چند سیکنڈ کم ہے، لاہور اور اس کے گردو نواح میں صرف آٹھ منٹ، اتنی کم عمر کے چاند کے نظر آنے کی صرف پانچ فیصد امید ہوتی ہے۔ بہرحال رویت ہلال کمیٹی نے، روزہ داروں کے اضطراب کا بڑا خیال کیا اور سورج غروب ہونے کے لگ بھگ دو گھنٹے، یعنی نو بجے تک چاند ’’برآمد‘‘ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن ساری جدوجہد بے نتیجہ رہی۔ تاہم ان کی یہ ’’نیکی‘‘ رائیگاں نہیں جائے گی، انہیں اس کا پورا پورا ثواب ملے گا۔ قومی روئت ہلال کمیٹی چیئرمین ڈاکٹر مفتی منیب الرحمن ایسے اجل حضرات پر مشتمل ہے، لہٰذا چاند دیکھنے کے بارے میں انہوں نے جو محنت کی اس پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ بنگلہ دیش سے مشرق میں واقع تمام ممالک، کوریا، جاپان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگا پور، تھائی لینڈ اور میانمار میں چاند نظر آ گیا۔ البتہ جنوبی ایشیا کے ممالک سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، بھوٹان، نیپال، اور سکم میں نظر نہیں آیا چین، روس، افغانستان اور ایران کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے خلیجی ممالک میں بھی چاند نظر آ گیا۔ ایک طرف کراچی میں قومی اور دوسرے شہروں میں زونل روئت ہلال کمیٹیوں کے اجلاس جاری تھے کہ بیم ورجاکی اس کیفیت میں اس خبر نے بڑی دلچسپی پیدا کردی کہ متحدہ عرب امارات کے معروف انگریزی اخبار خلیج ٹائمز کی رپورٹ کیمطابق عصر کے وقت ہی چاند نظر آ گیا۔ اس خبر کی پٹی بڑی دیر تک ایک چینل پر چلتی رہی جبکہ اس وقت خلیجی ممالک میں عصر کی نماز پڑھی جا رہی تھی ۔ ذرائع ابلاغ میں عجیب و غریب بدحواسیوں اور بوالعجیبوں کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے لیکن یہ ’’بدحواسی‘‘ اپنی نوعیت کی انوکھی بلکہ وکھری ٹائپ کی تھی ۔ لطف یہ ہے کہ کم ہی ناظرین کی توجہ اس طرف گئی ہو گی کہ امارات وغیرہ میں تو ابھی سورج ہی غروب نہیں ہوا۔
٭…٭…٭
روس: فیفا ورلڈ کپ کا میلہ سج گیا
دنیا بھر میں اولمپک کھیلوں کے بعد سب سے بڑا فنکشن فٹ بال کے عالمی کپ کے مقابلے ہیں۔ فیفا (فٹ بال کی عالمی فیڈریشن کا مخفف) ان تقریبات کا اہتمام کرتا ہے۔ یہ میلہ، ہر چار سال بعد ہوتا ہے، دنیا کے ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ تقریب اس کے ہاں ہو۔ میزبانی کا یہ سودا اربوں ڈالر میں پڑتا ہے۔2022کا ورلڈ کپ قطر میں ہوگا، قطر پہلا عرب، اسلامی اور غیر یورپی ملک ہے جہاں یہ میلہ سجے گا۔ قطر میں ابھی سے تیاریاں شروع ہیں۔ اربوں ڈالر کے خرچ سے سٹیڈیم کو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کیا جا رہا ہے اور کئی ایک پنج تارا ہوٹل زیر تعمیر ہیں۔ خود میزبان ملک روس، عالمی کپ کی تیاریوں پر اب تک 13ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ عالمی کپ میں دنیا بھر سے 32ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ ان کے درمیان ہونے والے میچ، روس کے بارہ مختلف شہروں میں ہوں گے۔ افتتاحی میچ میزبان روس اور سعودیہ کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا، جسے روس نے صفر پانچ سے جیت لیا۔ میچ دیکھنے کیلئے صدر پیوٹن اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدلعزیز آل سعود کے علاوہ 80ہزار سے زائد تماشائی بھی سٹیڈیم میں موجود تھے۔بیان کیا جاتا ہے کہ ’’سپورٹس مین سپرٹ‘‘ کی اصطلاح، فٹ بال کھیل کی دین ہے۔ تاہم فٹ بال کی تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ گزشتہ صدی میں لاطینی امریکہ کے دو ملکوں میں اس کھیل کے دوران کسی گول پر تنازع نے بڑھ کر جنگ کی صورت اختیار کر لی جس میں بھاری جانی نقصان ہوا۔ اسی طرح تقریباً ربع صدی قبل یورپ میں کھیل کے دوران کسی بات پر انگریزوں اور متعلقہ ملک کے لوگوں کے درمیان نوبت مار پیٹ سے بھی آگے بڑھ گئی، اس کھیل کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پرتگال کے کرسیٹنا رونالڈو جتنی شہرت اب تک کسی کھلاڑی کو نصیب نہیں ہوئی۔ رونالڈو ذاتی حیثیت میں پاکستان بھی آ چکا ہے۔ بہرحال افتتاحی میچ میں سعودی ٹیم کی ہار پر افسوس ہوا ہے۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے لیکن یہ میچ تو بالکل یکطرفہ رہا اور معزز مہمان کی سبکی کا باعث بھی بنا۔ اس گیم کا ایک اور پہلو خصوصاً قابل غور ہے کہ انگریزوں نے خود تو فٹ بال میں بھی بڑا نام کمایا اور ان کی فٹبال ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے لیکن ہمیں ادھر نہیں جانے دیا بلکہ کرکٹ کی ایسی چاٹ لگائی کہ ہم کیا بھارت اور سری لنکا وغیرہ بھی فٹ بال کے نقشے میں کہیں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ کڑیل پاکستانی نوجوان اس گیم میں ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ اگر حکومت اور دیگر ادارے دلچسپی لیں تو ہم بھی ’’شمار و قطار‘‘ کی فہرست میں آ سکتے ہیں۔
٭…٭…٭
راجپوتوں کا چوہوں کے موازنہ پر بھارتی ریاست راجستھان کی وزیر تعلیم کو ناک، کان کاٹنے کی دھمکی
راجستھان میں راجپوتوں کی اکثریت ہے۔ راجپوت، نسلًا سپاسیانہ خصوصات کے حامل ہیں۔ وہ سب کچھ برداشت کر لیں گے لیکن یہ نہیں برداشت کرینگے کہ کوئی اُنکی تذلیل، توہین یا قومی غیرت کو چیلنج کرے۔ راجستھان میں بی جے پی کی حکومت ہے جو صرف اس لئے اقتدار میں آ سکی کہ راجپوتوں نے کانگرس کی حمایت ترک کر دی تھی۔ بی جے پی کی رُکن اور صوبائی وزیر تعلیم کرن ماہی شوری کی بد قسمتی کہ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں راجپوت سماج سنگھرش سیمتی کے بارے میں سوال کے جواب میں کہہ بیٹھی کہ ایسے بھی لوگ ہیں، جو برساتی چوہے ہیں اور وہ انتخابات آتے ہی بلوں سے نکل آتے ہیں۔ راجپوت کرنی سینا نامی تنظیم نے کرن ماہی شوری کے ان ریمارکس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’راجستھان میں بی جے پی راجپوت برادری کی حمایت سے ہی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ماہی شوری نے انہی ’’چوہوں‘‘ کے بل پر الیکشن جیتا تھا۔ اب آئندہ انتخابات میں ہم انہیں ایسا سبق سکھائیں گے کہ جسے وہ کبھی نہیں بھول سکیں گی‘‘ کرن ماہی شوری نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اب موصوفہ کی سیاست بچتی نظر نہیں آتی، کوئی بعید نہیں، کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت راجپوتوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے، کرن کو وزارت سے ہی برطرف کر دے۔ یہ درست ہے۔ کہ راجپوت مزاج کے درشت ہیں، لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے، بالخصوص سیاست میں تھوڑی سی لچک دکھانا پڑتی ہے۔ ادھر ہمارے ہاںہی دیکھ لیں انتخابات آتے ہی سیاستدانوں کا ایک سے دوسری جماعت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی انہیں لوٹے کہتا ہے تو کوئی انہیں ہری چگ اور اکثر و بیشتر فصلی بٹیروں کے نام سے بھی انکی ’’عزت افزائی کی جاتی ہے۔ مجال ہے جو کسی نے کبھی برا مانا ہو، حالانکہ لوٹے کے مقابلے میں چوہا، کسی طرح بھی، ’’عزت شکن‘‘ نہیں۔ اورنگزیب عالمگیر کا دور تھا اور سیواجی مرہٹہ (جو بنیادی طور پر راہزن تھا۔ مگر آج کے بھارت میں اسے قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے اور تحریک آزادی کا بانی مانا جاتا ہے) نے سلطنت کو بہت تنگ کر رکھا تھا، وہ سرکاری لشکر پر چھاپہ مار کر وسط ہند کے پہاڑوں میں چھپ جاتا۔ تب اسے شہنشاہ ہند عالمگیر نے پہاڑی چوہے کا لقب دیا تھا۔ غالباً کرن ماہی شوری کے ذہن میں سیوا جی مرہٹہ ہی ہوگا۔