میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے محترم مجید نظامیؒ کی ہمیشہ خصوصی شفقت نصیب ہوئی۔ میں جب بھی لاہور جاتا تھاتو نظامی صاحب کا بلاوا آجاتا تھا اور ان سے مل کر ہمیشہ یہ احساس ہوتا تھا کہ حقیقتاً ایک قابل رشک و قدر شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے اور ان سے ہمیشہ مجھے رہنمائی ملی۔محترم مجید نظامیؒ مجھ سے تازہ ترین ملکی و سیاسی حالات پرسیرحاصل گفتگو فرماتے اور میری رائے تفصیل سے سن کر تعریف بھی کرتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ ایئرمارشل اصغرخان ثانی ہوکیونکہ اپنا موقف کھل کر بیان کرتے ہواور کبھی بھی وقتی سوچ کی حامل بات نہیں کی۔
اب تو لاہور آکر ایک کمی محسوس ہوتی ہے اور مجموعی زندگی میں بھی میری رہنمائی کرنے کے لئے نہ تو مجید نظامیؒ اس دن میں رہے ہیں اور نہ ہی ایئرمارشل اصغر خان۔محترم مجید نظامیؒ سچے عاشق رسول تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ قائد اعظم کی پشت پر اولیاء کرام اور حضورپاک ﷺ کا خاص کرم تھا کہ ان کی جدوجہد کا ثمر ملا اور ہم دنیا میں آزاد قوم بنے اور خود بھی اولیاء کرام کی دل سے قدر کرتے تھے۔ مجید نظامیؒ مرحوم کو قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی تعلیمات کا نہ صرف درست ادراک تھا بلکہ وہ ملک کی نوجوان نسل تک ان تعلیمات کو پہنچانے اور قوم کے رویئے کو ان تعلیمات میں ڈھالنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔
اقبال کا شاہین دراصل وہ مسلمان ہے جو سچا عاشق رسولﷺ ہو اور جس طرح کی زندگی صحابہ کرامؓ کی تھی کہ ظلم و جبر اور کفر کے سامنے کبھی نہیں جھکنا اور حسنینؓ کی طرح اپنی جان دین پر قربان کرنے کو ہر وقت تیار رہنا۔ اقبال کا شاہین وہ نہیں ہوسکتا جو امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کی دھمکیوں سے ڈرکر اپنے ملک کے فیصلے کرے اور کلبھوشن جیسے جاسوس پر ایک لفظ بھی ادا کرنے کی جرأت نہ رکھے۔ اقبال کا شاہین اگر دیکھنا ہے تو مجید نظامیؒ مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ ایسے دور میں بھی اس قدر دلیر‘ کھرے اور سچے لوگ دنیا میں موجود رہے ہیں جنہوں نے حقیقت میں اقبال کے شاہین کی طرز کی نہ صرف زندگی گزاری ہے بلکہ پوری قوم کو اس رنگ میں ڈھالنے کے لئے اپنی زندگی وقف کئے رکھی۔
مجید نظامیؒ مرحوم نے اپنے قلم اور صحافت کو ملک کے اقتدار کے ایوانوں سے اعلٰی مقام دیا اور آج کل کی صحافت کی طرح اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کو اپنا مطمع نظر نہیں رکھا بلکہ اقتدار کی پیشکشوں کو حقارت سے دھتکارتے ہوئے برملا کہا کہ میں اپنی موجودہ جدوجہد سے نہ صرف مطمئن ہوں بلکہ اقتدار کے ایوانوں کے بجائے ملک کو فکر قائد واقبال کے رنگ میں ڈھالنے کے لئے میری خدمات کی قوم کو زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی میں اقبال کا شاہین بن کر دکھایا۔ امریکی سفیر خود ان کے دفتر میں ملاقات کے لئے گئے تو انہوں نے آنے کی وجہ دریافت کی۔ امریکی سفیر نے کہا کہ آپ امریکہ کیخلاف بہت زیادہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہیںاور امریکہ‘ بھارت و اسرائیل کے اتحاد کو شیطانی اتحاد قراردیتے ہیں۔ اسی لئے میں اپنا موقف پیش کرنے آیا ہوں۔ نظامی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ آپ شیطانوں والے کام چھوڑ دیں اور مسلمانوں کی املاک پر قبضے اور مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا چھوڑ دیں تو میں مخالفت چھوڑ دوں گا۔ محترم مجید نظامیؒ کے اس برجستہ جواب پر امریکی سفیر چائے پیئے بغیر ہی چلا گیا۔ان کے ہم عصرکونسے مدیر یا لیڈر ہیں جن میں اتنی جرات ہو کہ وہ امریکی سفیر سے اس طریقے سے کھری اور سچی دوٹوک بات کہہ سکیں؟ یہ اوصاف ہی تو انہیں اقبالؒ کا شاہین بناکر دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے دورحکومت میں اخباری مدیروں کو مدعوکیا اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے تجاویز دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ اس پر محترم مجیدنظامیؒ نے برجستہ کہا کہ آپ فوری طور پر ملک کی جان چھوڑیں۔ اسی طرح جب غلام اسحاق خان اور نوازشریف کا تنازعہ ہوا اور نوازشریف کی حکومت کو انہوں نے 58-2B کے تحت برطرف کیا لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے نوازشریف حکومت کو بحال کردیا گیا تو ملک کا نظام دگرگوںکی کیفیت میں آگیا کہ ایوان صدر اور وزیراعظم کے باہمی ٹکرائوسے ملک چلنا ممکن نہیں رہا تو اس وقت کے آرمی چیف وحید کاکڑ نے یہ مشورہ دیا کہ صدر اور وزیراعظم دونوں ہی استعفٰی دیں۔ جنرل وحید کاکڑ کی اس تجویز پر محترم نظامیؒ صاحب نے نوازشریف کو کہا کہ جنرل کاکڑ کو آپ سے استعفٰی طلب کرنے کا اختیار نہیں تھا اسی لئے آپ کو انہیں ہٹا دینا چاہئے تھا۔ یہ بات جنرل کاکڑ تک پہنچی تو مدیروں سے ملاقات میں انہوں نے بات چیت کے دوران اس بات کا ذکر کیا کہ ایک اخباری مدیر نے تو نوازشریف کو مجھے برطرف کرنے کی بھی تجویز دی تھی جس پر نظامی صاحب نے کہا کہ وہ تجویز میری تھی جس پرجنرل وحید کاکڑ خاموش ہوگئے۔
بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد کے دنوں کے نوائے وقت کے اداریئے اس بات کے گواہ ہیں کہ محترم مجید نظامیؒ سچے عاشق رسولﷺ اور دلیر ترین شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے ایٹمی دھماکے کرنے اور اس کے ہر طرح کے نتائج کے لئے قوم کو تیار کیا اوراقبالؒ کی خودی اختیار کرنے کی تلقین کی۔ میرے خیال میں تو ایٹمی دھماکے نوازشریف نے محترم مجید نظامیؒ مرحوم کے دباؤ میں ہی کئے تھے۔ نوائے وقت واحد نظریاتی اخبار ہے جس کو پڑھنے والا اس کی تحریروں کا اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ وہ نوائے وقت جب تک نہ پڑھے اس وقت تک وہ تشنگی محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح نوائے وقت سے منسلک رہنے والے لوگوں کو جتنی عزت و وقار اس ادارے میں رہ کر ملا ہے وہ بعد میں نہیں ملا۔ نوائے وقت کی ہمیشہ پالیسی رہی ہے کہ کشمیر‘ فلسطین سمیت مظلوم مسلمانوں کے متعلق خبروں کو نمایاں شائع کیا گیا اور اس متعلق اداریئے‘ مضامین اور رپورٹس کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔
کالا باغ ڈیم ہو‘ مسئلہ کشمیر‘ پاکستان کا ایٹمی پروگرام‘ بنگلہ دیشی محصورین‘ فلسطین سمیت کونسا اہم معاملہ ہے جس میں محترم مجید نظامیؒ نے اصولی و دلیرانہ جنگ نہ لڑی ہو۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی محترم حمید نظامیؒ مرحوم کی طرح معاشی فوائد کو ہمیشہ نظرانداز کرکے نظریئے اور اصولوں کو ترجیح دی اور اپنی زندگی میں حکمرانوں کی جانب سے ہر طرح کی انتقامی کارروائی و جبر کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے رہے ۔ ان کی اسی مجاہدانہ زندگی کی وجہ سے ہی رب العزت نے انہیں 27 رمضان المبارک جیسے مبارک دن ہمیشہ کے لئے اپنے پاس بلا لیا ہر مسلمان شب قدر کی موت کا طلبگار رہتا ہے جو رب کریم نے مجید نظامیؒ جیسے کامل ولی اور اقبالؒ کے حقیقی شاہین کو عطا فرمائی۔اﷲ رب العزت اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے محترم مجید نظامیؒ کے درجات مزید بلند فرمائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024