کالاباغ ڈیم پاکستان کی المناک کہانی ہے پانی سٹور کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کا یہ منصوبہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہوگیا۔ اس منصوبے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں مگر ابھی تک اس قومی منصوبے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کالاباغ ڈیم سے 3600 میگا واٹ سستی بجلی پیدا کی جا سکتی تھی مگر جب بھی اس ڈیم کی تعمیر کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اینٹی کالاباغ ڈیم لابی متحرک ہوجاتی ہے اور یہ قومی منصوبہ کھٹائی میں پڑجاتا ہے۔
کالاباغ ڈیم ایک تکنیکی منصوبہ تھا جسے سیاسی بنادیا گیا۔ اسلام دشمن اور پاکستان دشمن عالمی قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہوجائے۔ پاکستان کے اندر علیحدگی پسند عناصر عالمی قوتوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام کو بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔ بجلی کی قیمت عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ پانی کے ماہرین خطرے کی گھنٹیاں بجارہے ہیں کہ 2025ء تک پاکستان میں پانی کا بحران خطرناک حد تک پہنچ سکتا ہے۔ اس انتباہ کے باوجود مفاد پرست سیاسی اشرافیہ ہوش میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ واپڈا کے چیئرمین مزمل حسین نے سینٹ کمیٹی برائے واٹر ریسورسز کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس صرف تیس دن کے پانی ذخیرہ کرنے کی اہلیت ہے جبکہ بھارت 170دن کے لیے پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔ بھارت 943ڈیم تعمیر کرچکا ہے جبکہ پاکستان کے پاس صرف 155چھوٹے بڑے ڈیم ہیں۔
چیئرمین واپڈا نے سینٹ کمیٹی کو تجویز پیش کی ہے کہ اگر سندھ کالاباغ ڈیم سے اتفاق کرلے تو اس کا نام بے نظیر ڈیم بھی رکھا جاسکتا ہے اور اس کا آپریشنل کنٹرول بھی سندھ کو دیا جاسکتا ہے۔ چیئرمین واپڈا نے انکشاف کیا کہ بھاشا ڈیم بھی تاخیر کا شکار ہے۔ متاثرین کو 80ارب روپے ادا کیے جاچکے ہیںاس کے باوجود جب بھی سائیٹ پر کام کا آغاز کیا جاتا ہے خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تخریب کار گولیاں چلانا شروع کردیتے ہیں۔ اب تک واپڈا کے بارہ اہلکار جان بحق ہوچکے ہیں۔
افسوس ہم ہر سال 25ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کررہے ہیں اور 1968ء کے بعد پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی بڑا ڈیم بنانے سے قاصر رہے ہیں اور لاشعوری طور پر احتجاجی خودکشی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کے کسی بڑی لیڈر نے کبھی پانی کے بڑے منصوبوں میں دلچسپی نہیں لی اور ایسے منصوبوں پر توجہ دی جن میں کک بیکس مل سکتی تھیں۔ پاکستان کے عوام کو انتخابات کے دوران سابقہ حکمرانوں کا احتساب کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان کو چاہیئے کہ وہ مادر وطن کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے پرانے سیاسی لیڈروں سے صاف پانی کی فراہمی اور پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں سوالات ضرور پوچھیں۔
پاکستان کے تین صوبوں نے کالاباغ ڈیم کے خلاف قرار دادیں منظور کررکھی ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دوست اور پاکستان کے دشمن نریندر مودی نے پاکستان کو آبی جارحیت کی کھلی دھمکی دے رکھی ہے جو قوم کو جگانے کے لیے کافی ہونی چاہئے تھی مگر جس قوم کے لیڈر حال مست اور مال مست ہوں وہ قوم بے خبری میں ماری جاتی ہے۔
پاکستان کے مرد مجاہد چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار قومی درد، جذبے اور عزم کے حوالے سے قائداعظم، لیاقت علی خان، حکیم محمد سعید، عبدالستار ایدھی، ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر قدیر خان جیسی قومی شخصیات کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ڈاکٹر سعید اختر کی نیک نامی، دیانت اور انسانیت کے لیے ان کی بے مثال کارکردگی کے بارے میں کالم لکھے ہیں۔ ان کی گواہی کو معتبر اور مستند سمجھتے ہوئے جناب چیف جسٹس پاکستان کو ڈاکٹر سعید اختر سے ’’بابا رحمتے‘‘ کی طرح سلوک کرنے کی عاجزانہ درخواست ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں سوموٹو نوٹس لے رکھا ہے جس سے ان کی پاکستان کی آنے والی نسلوں کے ساتھ لازوال محبت اور کمٹ منٹ کا اظہار ہوتا ہے۔ اُمید ہے کہ وہ ڈیموں کے سلسلے میں تاریخ ساز فیصلہ دیں گے جس کے نتیجے میں عوام کو مستقبل میں پانی کی جنگوں سے نجات مل جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کے نامور بیرسٹر اور تجربہ کار سیاستدان اعتزاز احسن کو عدالت کا معاون مقرر کیا ہے جو شب و روز محنت کرکے واٹر پالیسی کے بارے میں تجاویز پیش کریں گے۔بیرسٹر ظفر اللہ نے چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی ہے کہ نگران حکومت کو کالاباغ ڈیم کے سلسلے میں ریفرینڈم کرانے کی ہدایت کی جائے جس کی پاکستان کے آئین میں گنجائش موجود ہے۔ یہ ریفرینڈم 2018ء کے انتخابات کے دوران ہی کرایا جاسکتا ہے۔ ہر ووٹر کے سامنے یہ سوال رکھا جائے کیا وہ کالا باغ ڈیم کے حق میں ہے یا خلاف ہے۔ اگر چاروں صوبوں میں عوام کی اکثریت کالاباغ ڈیم کی حمایت میں ووٹ دے تو قومی اتفاق رائے سے ہنگامی بنیادوں پر ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا جائے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہر صوبے میں کالا باغ ڈیم مخالف لابی اقلیت میں ہے جو بلیک میل کررہی ہے۔ عوام کی منشا اور مرضی کو جاننے کا واحد راستہ ریفرنڈم ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت اور توقع ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کالاباغ ڈیم کے سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈرز کا مؤقف سننے کے بعد یہ اہم قومی مسئلہ جس کے ساتھ عوام کا اپنا مستقبل وابستہ ہے عوام کے سپرد کردیں گے تاکہ پاکستان کے اصل حکمران خود ریفرنڈم کے ذریعے کالاباغ ڈیم کے بارے میں فیصلہ کریں۔ پاکستان کے عوام کب تک عوام دشمن سیاسی اقلیت کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہیں گے۔ آمروں نے اپنے اقتدار کے لیے آئینی ریفرنڈم کا آرٹیکل استعمال کیا یہ حق پاکستان کے عوام کو قومی مسائل کے حل کے لیے کیوں نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان اپنی تاریخ کے اہم موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ عوام کے مستقبل اور آنے والی نسلوں کے قومی مفاد کو نااہل اور بدعنوان حکمران اشرافیہ کی مرضی اور منشا پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔
افسوس پاکستان کی کسی حکومت نے پانی کے استعمال کے سلسلے میں عوامی آگاہی کی مہم شروع نہ کی۔ اگر عوام کی تربیت کی جاتی تو وہ پانی کو بے دریغ استعمال نہ کرتے۔ زمیندار اپنی فصلوں پر جو پانی ضائع کرتے ہیں اس کی بچت سے ہر سال کئی ہزار کیوبک فٹ پانی بچایا جاسکتا ہے۔ حکومت اپنی ترجیحات کو تبدیل کرے اور چھوٹے ڈیم ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کیے جائیں تاکہ مستقبل میں پانی کی جنگوں سے بچاجاسکے۔ اُمید ہے کہ چیف جسٹس پاکستان پانی جیسے اہم ترین ایشو کے سلسلے میں کوئی روڈ میپ بنوانے میں کامیاب ہوجائیں اور آنے والی حکومت کو پابند کریں گے کہ وہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز کو اپنی پہلی ترجیح بنائے۔ یہی وقت ہے کہ ٹھوس واٹر پالیسی تشکیل دے کر اس پر ایمرجینسی بنیادوں پر عمل کیا جائے۔ پاکستان کے نوجوانوں کو اپنے اور بچوں کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے جاگنا ہوگا اور قومی مسائل میں پوری دلچسپی لینی ہوگی۔ وہ ووٹ دے کر گھروں میں نہ بیٹھ جائیں بلکہ اپنے نمائندوں پر کڑی نظر رکھیں ۔ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہیں اور اگر منتخب حکمران قومی مسائل کے سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ کریں تو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے مزاحمت کریں اور ان کا عوامی محاسبہ کریں تاکہ وہ قوم سے کیے گئے وعدوں پر عمل کریں۔ ایسا نہ ہو کہ منتخب حکمران پانچ سال مکمل کرنے کے بعد بھی عوام کے بنیادی مسائل بجلی، پانی، گیس، تعلیم اور صحت جوں کے توں چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلے جائیں اور عوام اپنے مقدر کو روتے رہیں۔یہ ماتم اور رونے دھونے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیئے۔ پاکستان کے نوجوانوں کو اپنے ملک کی خاطر ایکٹو رول ادا کرنا چاہیئے اور عوامی احتساب کے سلسلے کا آغاز ہوجانا چاہیئے۔جو لیڈر منتخب ہونے کے بعد عوام کو دھوکہ اور فریب دینے کی کوشش کرے پاکستان کے نوجوان نہ صرف ان کا سماجی بائیکاٹ کریں بلکہ ان کا پرامن محاسبہ کرکے ان کو راہ راست پر لائیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024