الحمد اللہ رحمت، برکت اور بخشش کی نعمتوں سے مزین، ماہ صیّام جِسے ماہ مقدس یارمضان شریف بھی کہا جاتا ہے، اپنی برکتوں کی بارشیں برساتا ہوا رخصت ہوا، ماہ صیّام کی نعمتوں اور برکتوں سے سرشاراُمتِ اسلامیہ آج اسکے انعام کے طور پر عید سعید کی مسرتوں بھری ساعتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔جس پررب العزت کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔دوسرے لفظوں میں اَجر و ثواب اور نیکیوںکا مہینہ مسلمانانِ ارض کو سرفراز کرتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا۔ جس میں امّۂ مسلم نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے، صبح سے شام تک بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کیا۔رب دو جہاں کے قرب کے حصول کیلئے اپنے روز کے معمولات کو حکم خداوندی کے طابع کر کے عاجزی و انکساری کی جو مثال پیش کی اس کے انعام کے طور پر آج ہم عید ِ سعید کی پر مسرت ساعتیں گزار رہے ہیں۔ یوں تو یہ مہینہ ہے ہی برکتوں اوررحمتوں کے حصول کا مہینہ ،اسے سال کا افضل اور مقدس مہینہ قرار دیا گیا۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں وہ قدر والی رات ہے جسے قرأن نے لیلۃ القدر کہہ کر ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ، یہی وہ رات ہے جس میں قرأن مجید فرقان ِ حمید کو رب العزت نے لوح محفوظ سے آسمان دنیا اور وہاں سے قلبِ مصطفی ؐپر نازل فرمایا۔ایک رویت کے مطابق تمام آسمانی کتب اسی ماہ نازل ہوئیں، توریت، انجیل،صحیفِ ابراہیمؑ کا نزول بھی اسی ماہ با برکت میں ہوا۔ یہی وہ ماہ مقدس ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا برکت اور آخری عشرہ بخشش قرار دیا گیا اور مسلمانوں کو نوید سُنائی گئی کہ آمد رمضان کے ساتھ ہی جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔اس مہنے سونا بھی عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔اس ماہ کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے جیسے پہلی اُمتوں پر کیے گئے۔وہی روزہ جس کیلئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ ’ روزہ میرے لئے ہے اس کا اجر بھی میں ہی دونگا‘ گویا روزہ رکھنا خود بھی اجر ہے اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ بھی۔ وہی روزہ جس کا ثواب دنیاوی بھی ہے اور اُخروی بھی۔جہاں روزہ اللہ کی رحمت و برکت و بخشش کے حصول کا سبب ہے وہاں اس سے دنیاوی فیوض و برکات بھی حاصل ہوتی ہیں۔سحر وافطار بھی باعث ثواب۔ لیکن ہم اسے ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور کمائی کا مہینہ سمجھ کرہر دو نمبری شائد اس لئے اپنے او پر جائز سمجھ لیتے ہیں کہ شائد قیامِ لیل کی برکت سے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے؟
یہ ماننا پڑے گاکہ اسلام کا ظہور در اصل معاشی انقلاب کا دوسرا نام تھا۔ جیسے کھانا انسانی بقا کیلئے ضروریۂ جبلی ہے مگر ذائقہ اسے من پسند بنا دیتا ہے تا کہ کھانے میں رغبت ہو، اسی طرح اسلام کا معاشی نظام معاشرتی بقا کے ساتھ ساتھ نیکیوں کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ اسلام کا معاشی نظام فلاحی یا جمہوری نظام کی بنیادی روح ہے ۔ رب العزت نے اس کو عبادات سے منسلک کر کے مسلمانوں کے لئے فیاضی و برکات کا باعث بنا دیا۔ اسلام کا حسن ہے کہ اس کی عبادات کا اجر و ثواب انفرادی ہے اور ثمرات اجتماعی۔ ہر شخص نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج، انفرادی حیثیت میں ادا کرتا ہے لیکن اس کی برکات اور ثمرات عام انسانوں تک پہنچتے ہیں۔پہلی تینوں عبادات کا اَجر و ثواب ماہ صیّام کی نسبت سے دس سے ستر گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ اگر اِس کو ’نیکیوں کی لوٹ سیل‘ کا مہینہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔فدیۂ صوم کی حکمت بھی معاشی پہلو لئے ہوئے ہے۔ دائمی مریض،معذور، شدید بیمار کو جہاں روزے سے رخصت دے کر اس بات کا ثبوت فراہم کیا گیا کہ اسلام میں سختی نہیں آسانی ہے ،وہاں فدیۂ صوم سے غربا و مساکین کے لئے معاشی ضروریات کے اسباب بھی مہیا کر دیے۔ کفّارہ ٔ صوم بھی غربا و مساکین کی دال روٹی کا بہترین انصرام ہے۔ماہ ِ صیّام میں صدقات کے اجر کو دس اور ستّر گنا بڑھانے کی حکمت بھی معاشی استحکام ہی ہے۔
ایک ماہ تک فیوض و برکات سمیٹنے کے بعد ہمیں عید الفطر کا جس شدت سے انتظار ہوتا ہے وہ بھی دیدنی ہے۔جیسے کسی کار ہائے نمایا ںپر انعام کی توقع۔ویسے تو روزے کی برکات خود بہت بڑا نعام ہے، جو تزکیۂ نفس، صبر و استقامت،تقویٰ کا حصول ،حرام سے بچنا،خواہشات کو قابو میں رکھنا، جذبات کی تلاطم خیز موجوں سے خود کو بچانا، بدنی و روحانی صفائی، قرب الٰہی کا حاصل ہونااور سب سے بڑھ کر دعاؤں کی قبولیت بھی روزے کا ہی انعام ہے۔جبکہ عید اس کا سب سے بڑا انعام ہے۔ماہ صیّام سے اس قدر عقیدت ورغبت کے باوجود ہمارے اندر ،ہمارے قلب و نظراور ہمارے دل میں وہ اوصاف حمیدہ جگہ نہیںبناپاتے جس کے لئے سارا مہینہ مشق کروائی جاتی ہے۔ یا پھر اسے ہماری منافقت کہہ لیں کہ شب و روز روزوں کی افادیت کا تذکرہ کرنے اور ان کے ثمرات سمیٹنے کی خواہش و آرزو کے باوجود ہم خود کو اس قالب میں نہ ڈھال سکے جو اس ماہ مقدس کا متمع نظر ہے۔ اگر29ویں شب چاند نظر نہ آئے اور ایک روزہ مزید رکھنا پڑے تو سارے مہینے کی نیکیاںغارت ہوتی دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ آخری روزہ خوش دلی سے نہیں بلکہ بادلِ ناخواستہ رکھنا پڑ رہا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے رب کے شکر گزار ہوں جس نے ایک روز اور نیکیاں سمیٹنے کا موقع دیا۔ اس کا کرم خاص ہواہم پر کہ ایک دن مزید قرب الٰہی کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ جان کر کہ ایک روزہ اور رکھنا پڑے گا، چہروں پر پژ مردگی چھا جاتی ہے۔ جب 29ویں روز چاند کی نوید سنائی دے تو چہرے یوں کھل اُٹھتے ہیں گویا قید با مشقت سے ایک دن پہلے رہائی نصیب ہوئی ہو۔ اگر ہم اپنی خوشیوں کو غریبوں، فقیروں اور مسکینوںکی خوشیوں سے مشروط کر لیں، جیسا کہ اللہ کا حکم ہے تو ہماری خوشیاں بھی دو چند ہو جائیں گی اور وہ لوگ جویہ خوشیاںمنانے کی سکت نہیں رکھتے وہ بھی ان سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ اس عمل کو اللہ نے صدقہ فطر سے موسوم کر کے ہمارے لئے نیکیاں کمانے کامزید موقع فراہم کر دیا۔صدقۂ فطر کی ادائیگی کا عمل یکم رمضان سے ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن نماز ِ عید سے قبل ادا کرنا واجب قرار دیا گیا کہ جن کے لئے یہ واجب کیا گیا ہے وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ صدقۂ فطر کی ادائیگی میں حیثیت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ بظاہر صدقہ گندم، جو،کھجور اور کشمش کی مخصوص مقدار یا اس کی قیمت مستحق تک پہنچانا ہے۔ گندم اور کشمش کی قیمت میں خاصا فرق ہے ۔ اس میں حیثیت کے مطابق عمل مستحسن ہے۔ جو کشمش کی قیمت دے سکتا ہو وہ کشمش کی قیمت ادا کرے ۔ اس سے عید کی خوشیوں میں غربا کو شریک کرنا مقصود ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024