اللہ کی نعمتوں کاشکرانہ
آغا سید حامد علی شاہ موسوی
عید لغت میں مادہ عود سے ہے جس کے لغوی معنی بازگشت (لوٹ آنا) کے ہیں فطر کے معنی کسی کام کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں جیسے صبح کی پہلی غذا ناشتہ کو فطور کہا گیا، ماہ رمضان کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے کی بنا پر تیس روزوں کے بعد اسلامی تہوار کو عید الفطر کہتے ہیں۔
ہادی برحق محمد مصطفیؐ نے عید الفطر کو اللہ کے بے پناہ اجر کے حصول کا دن قرار دیا اور امیر المومنین علیؓ ابن ابی طا لب نے قیامت کے مثل قرار دیا ہے کہ جیسے روز محشر ہر انسان اپنی سزا و جزا کو پہنچے گا ایسے ہی عید الفطر وہ روز جزا ہے جس دن اللہ ماہ رمضان میں خدا کی راہ میں پیاس بھوک برداشت کرنے والے پر اپنے تحائف کی برسات کرتا ہے ۔ قرآن مجید کی سورہ مائدہ میں نزول مائدہ کے دن کو عید قرار دیا گیا ہے یعنی کامیابی ، پاکیزگی اور خدا پر ایمان لانے کی طرف لوٹ کے آنے کا دن تھا لہٰذا حضرت عیسیٰؑ نے اس کا نام عید رکھا۔
عید الفطرماہ رمضان کی نعمتوں کا شکرانہ اور روزے داروں کے لیے انعام و تحائف کا دن ہے جو ہر سال ماہ رمضان کی مقدس ساعتوں کے بعد اللہ کی رحمت کا مظہر بن کر لوٹتا ہے لہذا عید کہلاتاہے ۔امام زین العابد ین ؓصحیفہ سجادیہ میں فرماتے ہیں
’’اس مہینے (رمضان )نے ہمارے درمیان قابل ستائش دن گزارے اور ہمارے ساتھ رفاقت کا حق ادا کیاہمیں عالمین کے بہترین فوائد سے نوازا اور جب اس کی مدت ختم ہو گئی تو ہم سے رخصت ہونے لگاہے اب ہم اس ماہ رمضان کو اس طرح رخصت کر رہے ہیں جس طرح اسے رخصت کیا جاتا ہے جس کا فراق سخت ہو اور اس کی جدائی غم زدہ بنانے والی ہو اور جو محفوظ حقوق قابل نگہداشت حرمت اور قابل ادا حق کو لازم قرار دے دے تو اب ہم یہ آواز دے رہے ہیں کہ اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے(رمضان) اور اے اولیاء خدا کے زمانہ عید تجھ پر ہمارا سلام۔سلام ہو تجھ پر اے اوقات میں سے بہترین ساتھی اور ایام میں سے بہترین مہینے۔سلام ہو تجھ پر اے وہ مدد گار جس نے شیطان کے مقابلے میں ہماری مدد کی اور ایسا ساتھی بنا جس نے نیکیوں کے راستوں کو آسان بنا دیا۔سلام ہو تجھ پرکہ تیرے دور میں جہنم سے آزاد ہو نے والے کس قدر زیادہ تھے اور تیری حرمت کا خیال رکھنے والے کس قدر نیک بخت ہو گئے۔سلام ہو تجھ پرکہ تو نے کس قدر گنا ہوں کو محو کر دیا اور کتنے قسم کے عیوب کو چھپا دیا۔سلام ہو تجھ پر کہ تو گنہگاروں پر کس قدر مہربان تھا اور تیری ہیبت صاحبان ایمان کے دلوں میں کس قدر زیادہ تھی۔سلام ہو تجھ پر اے وہ مہینے جس کا مقابلہ دوسرے زمانے نہیں کر سکتے ہیں۔سلام ہو تجھ پر اے وہ مہینے اور جو ہر رخ سے سلامتی کا باعث تھا۔سلام ہو تجھ پر کھ نہ تیری مصاحبت نا پسندیدہ تھی اور نہ تیری معاشرت قابل مذمت تھی۔سلام ہو تجھ پر کہ تو برکتیں لے کر وارد ہوا اور گناہوں کی کثافت کو دھو کر پاک کر دیا۔سلام ہو تجھ پر کھ تجھے دلی تنگی کی بنا پر رخصت نہیں کیا اور اس کے روزوں کو خشکی کی بنا پر نہیں چھوڑا گیا۔سلام ہو تجھ پر کھ تیرے وقت سے پہلے تیرا انتظار کیا جاتا ہے اور تیرے جانے سے پہلے ہی لوگ رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔سلام ہو تجھ پر کہ تیری وجہ سے کتنی ہی برائیوں کا رخ موڑ دیا گیا اور کتنی ہی نیکیاں انڈیل دی گئیں۔سلام ہو تجھ پر اور تیری قدر کی رات پر جو ہزار مہینوں سے بہتر تھی۔سلام ہو تجھ پر ہمیں کس قدر کل تیری آرزو تھی اور کل تیرا شوق رہے گا۔۔۔۔‘‘