علامہ منیر احمد یوسفی
عَاکِفُوْنَ عکف سے بنا ہے جس کے معنی ہیں ٹھہرنا‘ پکڑنا‘ قائم رہنا یا کسی جگہ بند ہونا۔ شریعتِ مطہرہ میں دنیوی تعلقات‘ مصروفیات اور بیوی بچوں سے الگ ہو کر مسجد میں (بہ نیّت عبادت) قیام کرنے یا ٹھہرنے کو اِعتکاف کہتے ہیں۔ اِعتکاف قدیم عبادت ہے۔ حکمتِ اِعتکاف یہ ہے کہ دنیوی مصروفیات اور نفسانی خواہشات سے بے تعلق ہو کر ایک کلمہ گو اِیماندار فکر و عمل کی ساری قوتوں کو اللہ (ل) کی یاد میں اور عبادت میں لگا دے۔ اِس عمل سے تزکیۂ نفس کی خاطر لغو باتوں اور برُائیوں سے آدمی محفوظ رہتا ہے۔ شب و روز کے مجاہدے‘ عبادت اور ذکر و دُرود کی کثرت سے سکونِ قلب اور روحانی سرور حاصل ہوتا ہے۔
حضرت سیّدنا ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ میں اِعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ جب بیسویں رات گزر جاتی اور اِکیسویں رات آتی تو اپنے آستانۂ عالیہ شریف میں واپس تشریف لے آتے ’’اور جو لوگ آپ ؐکے ساتھ اِعتکاف میں ہوتے وہ بھی گھروں میں واپس ہو جاتے‘‘۔ ایک رمضان المبارک کی اس رات آپؐ اِعتکاف میں رہے جس میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپ ؐ نے لوگوں کو خطبۂ مبارکہ اِرشاد فرمایا اور جو اللہ (تبارک و تعالیٰ) نے چاہا وہ اُن کو حکم فرمایا کہ میں اِس(درمیانی) عشرے میں اِعتکاف کیا کرتا تھا۔ اَب میرے لئے یہ اِنکشاف ہوا ہے کہ میں آخری عشرہ میں اِعتکاف کروں‘ اِس لئے جتنے لوگ میرے ساتھ اِعتکاف میں ہیں وہ اِعتکاف ہی میں رہیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی،بخاری)
حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں‘ حضرت سیّدنا عمر فاروقؓنے نبی اللہؐ سے عرض کیا کہ میں نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجدِ حرام میں اِعتکاف کروں گاتو نبی اللہ ؐنے فرمایا: تم اپنی نذر پوری کرو۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اِعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ دنیا سے پردہ فرما گئے۔ پھر آپ ؐ کے بعد آپ ؐ کی اَزواج مطہرات ؓ نے اِعتکاف کیا۔ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐکی عادتِ مبارکہ تھی کہ جب (ماہِ) رمضان (المبارک) کا آخری عشرہ داخل ہوتا۔ آپ ؐ رات کو جاگتے اور اپنے گھر والوں کوجگاتے اور عبادت میں بہت کوشش فرماتے اور اُمّت کے نمونہ کے لئے کمر ہمت باندھتے۔ (مسلم جلد۱ ص۲۷۳ دو سندیں۔)
ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اِعتکاف کرنا سُنّتِ مُؤکَّدہ علی الکفایہ ہے اگر مسلمان اِس سُنّت کو اِجتماعی طور پر چھوڑ دیں گے‘ تو سب ہی گنہگار ہوں گے اور اگر بستی کے کچھ اَفراد بھی اِس سُنّت کا اِہتمام کر لیں تو چونکہ یہ سُنّتِ مُؤکَّدہ علی الکفایہ ہے اِس لئے چند اَفراد کا اِعتکاف یا ایک دینی بھائی کا اِعتکاف سب کی طرف سے کافی ہو گا۔ اگر کوئی بھی دینی بھائی اِعتکاف نہ بیٹھے تو یہ بات اِنتہائی تشویش ناک ہو گی کہ پورا مسلمان معاشرہ اِس سے لاپرواہی برتے اور محبوبِ کریم ؐ کی یہ محبوب سُنّتِ مبارکہ بالکل ہی مٹ جائے۔
مسنون اِعتکاف کا وقت رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو غروبِ آفتاب کے پہلے سے لے کر عید کا چاند نظر آنے تک ہوتا ہے۔ چاہے چاند ۹۲ رمضان المبارک کو نظر آئے یا ۰۳ رمضان المبارک کو۔ ہر حال میں مسنون اِعتکاف پورا ہو جائے گا۔ اگر کوئی دینی بھائی ۰۲ رمضان المبارک کو غروب آفتاب کے بعد اِعتکاف کے لئے مسجد میں آئے گا تو اُس کا اِعتکاف مسنون اِعتکاف نہیں ہو گا۔ اِسی طرح اگرکوئی دینی بہن اِعتکاف کرنا چاہتی ہے تو وہ بھی اپنے گھر میں اُس جگہ میں داخل ہو جائے جو اِعتکاف کے لئے مخصوص کی ہے۔ عید کا چاند نظر آنے تک وہیں رہے۔ اَلبتہ طبعی ضروریات کے لئے جا سکتی ہے۔
اِعتکاف کے لئے مسلمان ہونا اور ہوش مند ہونا شرط ہے۔ اَلبتہ مرد وعورت کا بالغ ہونا شرط نہیں بلکہ نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّت اِعتکاف مسجد میں ٹھہرے تو یہ اِعتکاف صحیح ہے۔ واجب اِعتکاف اور سُنّتِ مُؤکَّدہ علی الکفایہ اِعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے۔ نفلی اِعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں۔ جائے اِعتکاف میں داخل ہوتے وقت مرد حالتِ جنابت سے پاک ہوں اور خواتین حیض و نفاس سے پاک ہوں۔ (۴) نیّت کے بغیر اِعتکاف نہ ہو گا۔ اگر کوئی شخص یونہی نیّت کے بغیر مسجد میں ٹھہرا رہا تو یہ ٹھہرنا اِعتکاف نہ ہو گا۔ مسجد میں اللہ تبارک و تعالیٰ واجب الوجود و مطلق و بسیط و بے حد کی رضا کی نیّت کے ساتھ اور سُنّتِ مصطفی ؐکو اَدا کرنے کی نیّت سے ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔ (۵) مَردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اِعتکاف کریں۔ چاہے اِس میں نمازِ پنجگانہ باجماعت کا اِہتمام ہو یا نہ ہو مسجد میں اِعتکاف کے بغیر مَردوں کا اِعتکاف صحیح نہیں۔
اِعتکاف کرنے والی دینی بہنوں کے لئے چند خاص مسائل قابل توجہ ہیں۔ حضرت اِمام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں: عورتیں گھروں کی مساجد (مسجدِ بیت جہاں وہ عموماً نما زپڑھتی ہیں) میں اِعتکاف کریں۔حضرت اِمام شافعی ؒ کا قدیم قول حضرت امام ابوحنیفہ ؓکے موافق ہے۔ گھر کی مسجد میں ہر عورت کا اِعتکاف درست ہے۔ (۱) عورت نے اِعتکاف کی منّت مانی تو شوہر منّت پوری کرنے سے روک سکتا ہے۔ (۲) شوہر نے بیوی کو اِعتکاف کی اِجازت دے دی۔ اَب اگر روکنا چاہے تو نہیں روک سکتا۔ (۳) قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء گئی تو طہارت کے بعد فوراً اِعتکاف کی جگہ پر چلی جائے۔ وہاں ٹھہرنے کی اِجازت نہیں۔ بغیر عذر کے اِعتکافِ واجب و مسنون میں مسجدِ بیت سے نہیں نکل سکتی۔ اگرچہ گھر ہی میں رہی تو اِعتکاف جاتا رہا۔ (عالمگیر‘ ردالمختار‘ بہارِ شریعت) (۴) اِعتکاف کی قضاء کرے اگر حیض یا نفاس آیا۔ اگر بعض دن کا اِعتکاف فوت ہو تو بعض کی قضا ء کرے۔ اگر کل فوت ہو تو کل کی قضاء کرے۔ (۵) عورت کے لئے مستحب ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ مقرر کر لے اور بہتر یہ ہے کہ اُس جگہ کو چبوترا وغیرہ کی طرح بلند رکھے۔ بلکہ مَرد کو بھی چاہئے کہ نوافل کے لئے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لے کہ نوافل کی نماز گھر میں پڑھنا اَفضل ہے۔ (۶) اگر عورت نے نماز کے لئے کوئی جگہ مقرر نہیں کر رکھی تو گھر میں اِعتکاف نہیں کر سکتی۔
مسجد سے نکلنے کے عذر: معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں:(۱) حاجت ِطبعی کہ مسجد میں پوری نہ کر سکے جیسے پاخانہ‘ پیشاب‘ اِستنجائ‘ وضو اور اگر غسل کی ضرورت ہو تو غسل۔ (۲) حاجتِ شرعی مثلاً جمعہ کے لئے جانا یا اَذان کہنے کے لئے مینارہ پر جانا۔ جب کہ مینارہ پر جانے کے لئے باہر ہی سے راستہ ہو اور اگر مینارہ کا راستہ اندر سے ہو تو غیر مؤذن بھی مینارہ پر جا سکتا ہے۔ مؤذن کی تخصیص نہیں۔ (بہارِ شریعت)شیخ المشائخ شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ غسل کے لئے مسجد سے نکلنے کے جواز میں میں نے کوئی روایت نہیں دیکھی۔
اِعتکاف اور مسائلِ اِعتکاف
Jun 16, 2017