گر قبول افتد زہے عزّ و شرف ؟

Jun 16, 2014

بشری رحمن

 گذشتہ ہفتے کراچی میں جو کچھ ہُوا وہ قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ قیامت ان کے گھروں میں آ کر ٹھہر گئی ہے جن کے پیارے شعلوں کی زبان چاٹ گئی۔ 25 قیمتی سکیورٹی اہلکار اور کولڈ سٹوریج کے 9 محصورین کی دردناک چیخیں، فریادیں، پکار آج تک اقتدار کے ایوانوں کا پیچھا کر رہی ہیں۔ ہزاروں سوال اٹھائے گئے مگر جواب تو ایک بھی نہیں آیا۔ میڈیا نے برملا کہا اسلحہ انڈین ساخت کا تھا، دوائیاں اور گولیاں انڈین میڈ تھیں مگر اہل اقتدار نے کان بند کر لئے۔
تحفے کے جواب میں تحفہ آتا ہے۔
پاکستان تشریف لے گیا۔
انڈیا نے سواگت کیا۔
تیس منٹ کی ملاقات پچاس منٹ میں ڈھل گئی۔ اندر پانچ نقاط زیر بحث آئے۔ وہ نقاط کیا تھے؟ --- انڈیا نے پہلی بار نکتہ پیش کیا پاکستان کو دہشت گردی بند کر دینی چاہئے۔ دوسرا نکتہ بھی یہی تھا، تیسرا بھی یہی، چوتھی بار یہی سوال اٹھایا اور پانچویں بار بھی دہشت گردی کا الزام لگایا۔ پاکستان چپ بیٹھا رہا
منظور تھا پردہ تیرا ....
اگلے دن انڈیا کے ایک بڑے اخبار نے دو لیڈروں کا کارٹون چھاپا --- جو میز کے ارد گرد بیٹھے ہیں --- اور ہاتھ ملا کر کہہ رہے ہیں --- ”یقین مانئے، جیسے اب تک ہم مذاکرات کرتے رہے ہیں، اس مدعے پر بھی چرچا جاری رکھیں گے۔“
انڈیا کی نئی کابینہ میں منجھی ہوئی سیاستدان سُشما سوراج کو انڈیا کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ عمر انکی تقریباً 60 سے اوپر ہے، تیز طرار ہیں اور ذہین مانی جاتی ہیں، نہ تو ”ہاٹ“ ہیں نہ نوخیز اور نہ ہی اپنی جیولری اور پرسوں کی نمائش پر خارجہ دورے کرتی ہیں۔ انہوں نے قلمدان سنبھالتے ہی کہا ہے، دونوں لیڈروں کی ملاقات میں صرف پاکستان پر دباﺅ ڈالا گیا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی بند کر دی جائے اور کوئی بات نہیں ہوئی۔
پچاس منٹ اتنے کم ہوتے ہیں اگر دو جمہوری لیڈر اپنے اپنے جمہوری سسٹم کے انتخابات کے تجربات ہی شیئر کرنا شروع کر دیں تو وقت کا پتہ نہیں چلتا۔ مسکراہٹیں وافر مقدار میں دان کی گئیں۔
پہلی بار نہیں کہ دہشت گردی میں انڈین ساختہ اسلحہ پکڑا گیا، کئی بار یہ تجربہ ہوا، پہلی ملاقات کا تحفہ یہی کراچی حملہ تھا
گر قبول افتد زہے عزّ و شرف ؟
آپ نے شال بھیجی، ہم نے قبول کی۔
ہم نے ساڑھی بھیجی، آپ نے قبول کی۔
آپ نے لائن آف کنٹرول میں بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی --- اور کہا
گر قبول افتد زہے عزّ و شرف ؟
شہدائے کشمیر کا خون باہر کھڑا پکارتا رہا۔ پاکستان کے دریاﺅں کا چرایا ہوئی پانی دہلیز پر سر ٹکراتا رہا۔ ماضی کے تلخ تجربات برابر آوازیں دے کر بلاتے رہے --- مگر اندر مسکراہٹیں اور مذاکرات جاری رہے۔
اب ہم نے محبت نامہ لکھا ہے ہم امن کے شیدائی ہیں، ہم مذاکرات کے سودائی ہیں۔ امن کی قیمت صرف ہم ادا کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے آپ نے ہمارے پانیوں پر قبضہ کیا ہماری زمینوں کی کوکھ سوکھ گئی، ہریالی کھیتیاں ویرانوں میں بدل گئیں، اب ہم امن کی خاطر آپ سے آپ کے من چاہے منصوبوں کے تحت تجارت کریں گے۔ آپ کی جنتا چاہے بھوکوں مرتی رہے ہم آپ سے گندم، سبزیاں، پھل دوائیاں اور دیگر مصنوعات مہنگے داموں خرید لیں گے تاکہ ہماری مارکیٹیں اور منڈیاں فنا ہو جائیں --- جدھر نظر آئیں آپ ہی نظر آئیں۔ پہلے ہم پانی کو ترستے ہیں، آنے والے دنوں میں روٹی کو ترسیں گے
گر قبول افتد زہے عزّ و شرف ؟
مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کے سامنے کئی چیلنجز ہیں اور سب سے بڑا چیلنج پاکستان ہے؟ ان کے خیال میں اگر پاکستان ایک کمزور اور ناکام ریاست ہے تو وہ اس سے خوفزدہ کیوں رہتے ہیں؟ کمزوروں سے تو کوئی ڈرتا نہیں اور نہ کمزوروں کو مٹا دینے کی تمنا رکھتا ہے۔ انڈیا کو ہر قسم کی سہولت ہر قسم کی تجارت اور ہر قسم کی راحت صرف پاکستان سے کیوں درکار ہے۔ سب جانتے ہیں باقی کے سارک ممالک انڈیا سے ہمیشہ ناراض رہتے ہیں، سرحدوں پر اس کا اعتبار نہیں کرتے۔
ہمارے خوش فہم لیڈران ہمیشہ رومانٹک موڈ میں رہتے ہیں، رومانس کی انتہا خط و کتابت ہی ہوتی ہے۔ بھئی! ایسے موسم میں خط و کتابت کی کیا ضرورت ہے جب ہر پیغام پہنچانے کیلئے چاروں طرف ذرائع ہی ذرائع ہیں۔ دنیا خود آنکھ بن گئی ہے، خود کان بن گئی ہے۔ اب دیواروں کو کانوں سے تشبیہہ دینے کا موسم نہیں رہا۔ مودی میں اور ہمارے لیڈروں میں ایک اور قدر مشترک ہے۔ مودی کہتا ہے میں کم از کم دس سال رہوں گا اور وہ دس سالوں کی پلاننگ کر رہا ہے۔ خط و کتابت سے اسے دلچسپی نہیں البتہ خطے میں گہری دلچسپی ہے۔
ادھر سے خط گیا تھا کہ دل مضطرب ہے.... ؟
جواب ان کا آیا۔ محبت نہ کرتے، کی ہے تو بھگتو؟
دس سالوں پر محیط من موہن کی حکومت بھی ایسے ہی جواب دیتی رہی۔ ان کی طرف سے جو کوئی ایک بار پاکستان آتا ہے دوسری بار پاکستان کی مخالفت کرنے کے قابل نہیں رہتا --- ان کو بھی دعوت دیجئے۔ پر دعوت دینے کا کیا فائدہ --- پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا
ہم نے خط لکھ کے ان کو بلایا آ کے قاصد نے قصہ سنایا
ان کے پاﺅں میں ”گولی“ لگی ہے آنے جانے کے قابل نہیں ہیں

مزیدخبریں