پاما اور پاپام نے ایس آر او 615 کے اقدامات کو ناقابل عمل قرار دیدیا،ایف بی آر کو خطوط
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)آٹو صنعت اور آٹو پارٹس مینوفیکچروں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے کہا ہے کہ وہ کمپنیوں کو بار بار اپنا ڈیٹا پیش کرنے پر مجبور نہ کریں کیونکہ اس سے ملک میں کاروباری دشواریوں میں اضافہ ہوگا۔یہ تجویز پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایکسزسیریز مینوفیکچررز (پاپام) نے چیئرمین ایف بی آر ایم جاوید غنی کو علیحدہ خطوط میں دی۔ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان نے چیئرمین ایف بی آر کو پاما ممبران کے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایس آر او 615(1)/2020 میں بیان کردہ طریقہ کار قابل عمل نہیں ہے کیونکہ ڈویژن III میں مطلوبہ ڈیٹا پہلے ہی ایف بی آر کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔کمپنیوں کو بار بار اعداد و شمار پیش کرنے پر ملک کا پہلے ہی سے 100 فیصد دستاویزی سیکٹر شدید کاروباری مشکلات سے دوچار ہوگا یہ ایک طرح کی بیوروکریٹک کاروباری بندشیں ہیں۔ ہم نے ہمیشہ دستاویزی معیشت کے لیے حکومت کا ساتھ دیا ہے لیکن اس طرح کے قواعد کاروباری تسلسل کو معطل کرکے رکھ دیں گے جس سے کاروبار میں آسانی پیدا ہونے کی بجائے دشواری پیدا ہوگی۔ڈی جی پاما نے مزید کہا کہ پاما کے ممبران کی ای ڈی بی اور ایف بی آر سمیت متعدد سرکاری اداروں کی نگرانی مختلف مراحل پر کی جاتی ہے ، لہذا ان کا مکمل ریکارڈ حکومت کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ انہوں نے انہوں نے ایس آر او کو قابل عمل بنانے اور مقامی صنعت کاروں کی سہولت کے لیے تجویز بھی دیں۔پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایکسزسیریز مینوفیکچررز (پاپام) نے ایف بی آر سے درخواست کی ہے کہ ایس آر او 655 کے تحت اُن کی درآمدات کو ایس آر او 615 کی تعمیل سے استثنیٰ دیا جائے۔چیئرمین پاپام کیپٹن (ر) محمد اکرم کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ، ایل آر پالیسی ، ریونیو ڈویژن کو 13 جولائی 2O2O کو لکھے گئے خط میںایف بی آر ، ای ڈی بی اور پاپام کے مابین میٹنگ کی بھی درخواست کی گئی تاکہ کسی بھی قسم کے خدشات کو دور کیا جاسکے اور ایف بی آر کی رضا مندی سے امور پر اتفاق کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ 9 جولائی 2O2O کو جاری کردہ ایس آر او 615 کے مسودہ میں تصدیق کا پورا عمل پہلے ہی انجام دیا جارہا ہے۔ ای ڈی بی کے ذریعے پہلے ہی تمام اے پی ایم کے لئے نافذ ہے ، اور ان کی فروخت کی مکمل تصدیق کی جارہی ہے اور ان کے زیر انتظام ریکارڈ کو بھی رکھا جارہا ہے اس لیے اس پورے عمل کو دوبارہ ایس آر او 615 کے تحت دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ مذکورہ ایس آر او میں ایک اور حصہ متعارف کرایا جائے ، خصوصی طور پر ایس آر او 655 کے تحت درآمد شدہ آٹوموٹیو سیکٹر میٹریلز کی فہرست کے لیے (ایک یا دو فیصد پر ٹیکس کے ساتھ)۔ مزید یہ کہ چونکہ ایس آر او 655 کے تحت درآمدات کا پورا ریکارڈ ای ڈی بی کے پاس ہے، لہذا وہ ہر درآمد کنندہ کے سلسلے میں براہ راست ایف بی آر کی معاونت کرسکتے ہیں۔