شفاف توانائی پر 50 میگاواٹ کی حد سابقہ حکومت کا مجرمانہ اقدام تھا
اسلام آباد ( نوائے وقت نیوز) وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کہا ہے کہ پاکستان قابل تجدید توانائی کی دولت سے مالا مال ہے جبکہ سابقہ حکومت کی جانب سے شفاف توانائی کی پیداوار پر 50 میگا واٹ کی قدغن لگاکر درآمد شدہ کوئلے کی بجلی کو فروغ دینا ایک مجرمانہ فعل تھا۔ وزیر اعظم پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے اور قابل تجدید توانائی کی پیداوار بڑھانے کیلئے پر عزم ہیں۔ 10 بلین ٹری سونامی منصوبہ کے پیچھے جو قوت کار فرما ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ موجودہ حکومت کی سیاسی بصیرت اور عزم ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ورلڈ اکنامک فورم کے صدر بورج برینڈ سے ایک ملاقات میں کیا۔ عالمی اقتصادی فورم کے صدر نے گذشتہ روز وزارت موسمیاتی تغیرات کا دورہ کیا اور وزیر اعظم کے مشیر سے انکے دفتر میں ملاقات کی۔ ملاقات میں معزز مہمان نے پاکستان تحریک انصاف کی پالیسیوں کی تعریف کی اور عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے حکومت پاکستان کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال دنیا کو جن پانچ بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں سے تین براہ راست عالمی موسمیاتی تغیرات سے متعلق ہیں۔ انہوں پاکستان کے بلین ٹری سونامی کے منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر خصوصا ترقی پذیر ممالک میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان کے پاس قابل تجدید توانائی خصوصا پن بجلی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا جہاں موسمیاتی تغیرات کو روکنے کیلئے ضروری ہے وہاں سیلاب کی روک تھام کیلئے بھی اہم ترین ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ناروے اس وقت 100 فیصد توانائی پن چکیوں سے حاصل کر رہا ہے۔ مزید براں پن بجلی ناروے میں صنعت کاری کے فروغ اور اقتصادی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے معزز مہمان کو زیر تکمیل 10 بلین ٹری منصوبہ، پاکستان کلین گرین منصوبہ اور پاکستان ایکوسسٹم بحالی فنڈ سے متعلق پیش رفت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں حاصل شدہ کامیابی کے تجربے کو پورے پاکستان میں پھیلانا چاہتے ہیں اور بلین ٹری سونامی پرجیکٹ کو بون چیلنج کے ساتھ رجسٹر کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے ماحول دشمن کوئلہ سے حاصل شدہ توانائی کوایسے وقت پہ متعارف کرایا جب پوری دنیا اس سے چھٹکارہ حاصل کررہی تھی۔ ہماری حکومت کو مشکل معاشی حالات کے باوجود کوئلے کے کارخانوں کو کپیسٹی چارجز کی صورت میں ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے زائد بجلی کو برقی گاڑیوں میں صرف کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس ضمن میں الیکٹرک وہیکل پالیسی زیر تکمیل ہے جسے جلد ہی کابینہ کی منظوری کیلئے پیش کر دیا جائے گا۔