ناشتے کا وقت ہے، ہم پرسکون ناشتہ کر رہے ہیں، ساتھ ساتھ اخبار کا مطالعہ بھی ہو رہا ہے اور ٹیلی ویڑن بھی دیکھا جا رہا ہے۔ صبح صبح ہونے والی بارش کے بعد موسم خاصا خوشگوار تھا۔ ایسا موسم صحت اور مزاج پر بھی اچھے اثرات چھوڑتا ہے۔ سڑکوں پر ہونے والے جھگڑے کم ہو جاتے ہیں۔ گرمی کی شدت سے غصے میں تیزی بھی بارش اور اچھے موسم کی وجہ سے کم ہو جاتی ہے۔ احمد بھی ناشتے کے لیے پہنچ گیا۔ آتے ہی کہنے لگا ڈیڈ کیا ہر وقت اخبار اور ٹی وی میں مصروف رہتے ہیں جب جانتے ہیں کہ سب جھوٹ ہے، خبریں، تجزیے تبصرے، ماہرین کی رائے، قومی و بین الاقوامی نشریاتی ادارے سب مل کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں پھر بھی آپ اپنا بڑا وقت اخبار اور ٹی وی دیکھنے میں گذارتے ہیں۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ آپ بھی لکھتے لکھتے ڈنڈی مارتے ہیں۔ ہم نے کہا آج صبح صبح بڑے اچھے موڈ میں ہو خیریت تو ہے۔ کہنے لگا ایک تو آپکو وقت بچانے کا اچھا مشورہ دے رہا ہوںاور آپ اسے مذاق سمجھ رہے ہیں۔ اخبار دیکھیں، ٹی وی چینلز دیکھیں مریم اورنگزیب صاحبہ کے بیانات چل رہے تھے کہ شہباز شریف کے حوالے سے ڈیلی میل کی خبر جھوٹی ہے، یہ اخبار ماضی میں بھی ایسی خبریں شائع کرتا ہے۔ پھر احمد کہنے لگا ڈیلی میل جھوٹا ہے تو پانامہ والا سکینڈل بھی جھوٹا ہے۔ یعنی سب کچھ ہی جھوٹ پر مبنی ہے۔ ڈیڈ اس کا مطلب یہ ہے مہنگائی کی خبریں بھی جھوٹی ہیں، ہڑتال کی رپورٹنگ بھی جھوٹ پر مبنی تھی، پھل اور سبزیاں مہنگی ہو گئی ہیں یہ خبر بھی جھوٹ ہے، آٹے کی قیمت بڑھ گئی ہے، چینی مہنگی ہو گئی ہے، نئے ٹیکس لگنے سے عوام پریشان ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے یہ بھی غلط ہے۔ محکمہ جاتی کرکٹ کو بند کرنے کی خبریں بھی کوئی حقیقت نہیں ہو گی۔ ہم نے احمد کو روکا اور کہا یار ناشتہ کرو اتنے اچھے موسم میں صبح صبح سیاسی گفتگو چھیڑ دی ہے۔ ہم ایک غیر سیاسی صبح کے موڈ میں تھے، عالمی کپ میں انگلینڈ کی فتح کی خبریں پڑھ، دیکھ اور سن رہے تھے اور فائنل میچ کی سنسنی اور دلچسپی سے لطف اندوز ہو رہے تھے آپ نے آ کر ساری توجہ سیاسی حالات کی جانب موڑ دی ہے۔ پھر احمد بولا اچھا آپ کرکٹ پر بات کر لیں۔ نیا ڈومیسٹک سٹرکچر آ رہا ہے، محکموں کی ٹیمیں ختم کر دی گئی ہیں اب صرف چھ ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلیں گی۔ اس نئے فارمیٹ پر یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ کم ٹیمیں ہوں تو معیار بلند ہو سکتا ہے۔ اچھے کرکٹرز سامنے آئیں گے، زیادہ ٹیمیں ہوں تو معیار برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر کم ٹیمیں معیار کی ضمانت ہیں تو انڈیا میں سینتیس ٹیمیں فرسٹ کلاس کھیلتی ہیں کیا ان کے پاس اچھے کرکٹرز کی کمی ہے، کیا وہاں مقدار معیار پر حاوی ہے، کیا وہاں ورلڈ کلاس کرکٹرز سامنے نہیں آ رہے، کیا بھارت کے پاس کسی شعبے میں کوئی کمی ہے۔ ہماری خاموشی دیکھ کر کہنے لگا ڈیڈ آج آپ کے پاس کو ئی دلیل نہیں ہے، آج آپکو لاجواب کر دیا ہے چلیں ناشتہ کریں۔ ہم ناشتہ کرتے اور انگلینڈ کی فتح پر باتیں کرتے رہے۔ احمد چلا گیا اور ہمیں لکھنے کے لیے موضوع دے گیا۔
قارئین کرام ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ صرف اپنے موقف کو درست سمجھا ہے اور اسی موقف کی حمایت کا تقاضا کرتے رہے ہیں۔ ڈیلی میل کی سٹوری کو دیکھ لیں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ نے اسے مسترد کیا ہے بالکل اسی طرح پانامہ سکینڈل کو بھی مسترد کیا گیا تھا۔ کیا سچ صرف وہ ہے جو ان کے موقف کی حمایت کرے، کیا سچ صرف وہ ہے جو تعریف میں ہو، کیا سچ صرف وہ ہے جسے مدح سرائی کہا جاتا ہے، کیا سچ صرف وہی ہے جو میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کا ایک حلقہ بول رہا ہے، کیا سچ صرف وہ ہے جو شاہد خاقان عباسی بول رہے ہیں، کیا سچ صرف وہ ہے جو احسن اقبال اور خواجہ آصف بول رہے ہیں۔ اگر ڈیلی میل یہ لکھتا کہ شہباز شریف بہت اچھے منتظم ہیں انہوں نے بہت محنت کی ہے تو کیا پھر بھی ن لیگ کے بڑے چھوٹے یہی کہتے کہ ڈیلی میل جھوٹ لکھ رہا ہے، غلط رپورٹنگ کر رہا ہے، الزام تراشیاں کر رہا ہے۔ یقینا ایسا نہیں ہے اس وقت سب بڑھ چڑھ کر بولتے کہ ہماری گورننس کی تعریف تو بیرونی دنیا بھی کر رہی ہے۔ یہی ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا المیہ رہا ہے۔ یہ سچ نہیں بولتے، غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اگر ان کی بنیادیں مضبوط ہوں، دامن صاف ہو تو نہ اپنے میڈیا کا خوف ہو نہ بیرونی دنیا سے کوئی خطرہ ہو، کرپشن اور منی لانڈرنگ نے ملک کو مالی طور پر نقصان پہنچایا ہے تو پیسہ بیرون ملک منتقل کرنے کی مکروہ مہم کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ بہت خراب ہوئی ہے۔ ڈیلی میل کی سٹوری کو ایک طرف رکھ دیں، ن لیگ والے قوم کو جواب دیں کہ کیا چھانگا مانگا میں انسانوں کو خریدنے کی خبر بھی جھوٹ تھی، میاں نواز شریف اور ان کے حواری جواب دیں کہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کا ائیر پورٹ پر استقبال نہ کرنے کی خبر بھی جھوٹ تھی، یہ بھی جواب دیں کہ ملکی سیاست میں پیسوں کے ذریعے حکومت گرانے اور بنانے کے خبریں بھی جھوٹی ہیں، عدلیہ کو داغدار کرنے کی خبریں بھی جھوٹی ہیں، مرحومہ نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی کردار کشی کی خبریں بھی جھوٹی ہیں، سیف الرحمان کے نیب کی کارروائیاں بھی جھوٹی ہیں، مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے بھاگنے اور پھر معاہدہ توڑ کر وطن واپس آنے کہ خبریں بھی جھوٹی ہیں، سعد الحریری کا پاکستان آنا بھی جھوٹ ہے، ڈان لیکس بھی جھوٹ ہے، ریاستی اداروں کو گروی رکھنا بھی جھوٹ ہے، ہزاروں ارب کا قرضہ بھی جھوٹ ہے، مل ملا کر الیکشن جیتنے کے واقعات بھی جھوٹ ہیں۔ سب جھوٹ ہے،سب غلط بیانی ہے۔ سچ صرف وہ ہے جو میاں صاحب بتائیں گے، سچ صرف وہ ہے جو شہباز شریف بتائیں گے، سچ صرف وہ ہے جو حمزہ شہباز سنائیں گے، سچ صرف وہ ہے جو مریم بی بی بتائیں گی۔
کیا ایسا ممکن ہے۔ یہ دعوے، بیانات، پریس کانفرنس، انٹرویوز حقیقت تو نہیں بدل سکتے۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا گیا ہے، ملک کو گروی رکھا گیا ہے، منی لانڈرنگ کی گئی ، اداروں کو کمزور کیا گیا ہے، ملک دشمنوں کے ساتھ مل کر ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی سازش کی گئی ہے، حکومت بچانے کے لیے اداروں کے مابین محاذ آرائی کا ماحول پیدا کیا گیا ہے، پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا گیا ہے، جمہوریت کو بدنام کیا گیا ہے۔ کوئی نہ مانے، کوئی نہ سمجھے کسی کے نہ ماننے اور نہ سمجھنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی، فیصلے واپس نہیں ہو سکتے، ماضی سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ کاش کہ سیاست دان، حکمران خود سچ بولنا شروع کریں، قوم کو سچ بولنے کی ترغیب دیں، صاف گوئی کا درس عام کریں، غلطیاں تسلیم کریں، رحم کا سبق دیں، لالچ سے بچیں، اقتدار کو عوامی خدمت کے لیے استعمال کریں، ذاتی کاروبار کے بجائے نسلوں کی تربیت پر سرمایہ کاری کریں، غریبوں کو اپنا بنائیں، صلہ رحمی کریں۔ اگر یہ سب کریں گے تو پھر نہ پانامہ کا کوئی خوف رہے گا نہ ڈیلی میل کی جرات ہو گی کہ وہ کوئی جھوٹی خبر شائع کر سکے یا الزام تراشی کرے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024