نظریاتی سمر سکول ایک ماہ تک حب الوطنی اور علم و آگہی کی کرنیں بکھیرنے کے بعد اختتام پذیر ہو گیا جس میں 125تعلیمی اداروں کے 188طلبا و طالبات نے شرکت کی۔ نسل نو کی نظریاتی تعلیم و تربیت کے اس گہوارے سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات کو محترم مجید نظامی نظریاتی گریجوایٹس کہا کرتے تھے۔ 20برس قبل ان کا کاشت کردہ یہ پودا اب ماشاء اللہ تناور درخت بن چکا۔ اس کے تربیت یافتہ بہت سے طلبا و طالبات وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے پاسبان ہیں۔ مناسب ہو گا کہ اس سکول کا پس منظر بیان کر دیا جائے۔ سال 2002ء میں ملک میں پاکستانیت کی بجائے روشن خیال اعتدال پسندی کا ڈھول پورے زور سے پیٹا جا رہا تھا۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی چھتر چھایا تلے لبرل فاشسٹ حلقہ مصر تھا کہ پاکستان میں پائی جانے والی انتہا پسندی‘ عدم برداشت اور جہادی جذبات کے فروغ کا ذمہ دار مروجہ نصاب تعلیم ہے۔ اس میں ایسا مواد پایا جاتا ہے جو ہمسایہ ممالک سے قریبی دوستانہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ اس حلقے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک پاکستانی بچوں کو اپنے قابل فخر اسلاف کی حیات و خدمات اور اسلامی تاریخ سے بے بہرہ نہ کیا جائے گا‘ ان میں رواداری‘ صلح کل اور بقائے باہمی کی سوچ پروان نہ چڑھ سکے گی جو ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات کے لئے لازم ہے۔ اس کی بجائے بچوں کو ایسا نصاب پڑھایا جائے جو انہیں چندر گپت موریہ اور اشوکا دی گریٹ کی عظمت کا قائل کر دے اور اُن کے سامنے جنوب مشرقی ایشیا کی مشترکہ تاریخ اور تہذیب و ثقافت کو اجاگر کر دے۔ چنانچہ آمر مطلق کے حکم پر نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلیاں متعارف کروا دی گئیں جن کے پروردہ بچوں کا قبلہ مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کی بجائے واشنگٹن‘ لندن اور نئی دہلی ٹھہرتا۔ یہ صورتحال اسلام اور پاکستان کی نام لیوا شخصیات کے لئے بہت تشویش ناک تھی۔ چنانچہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ایک بے لوث سپاہی‘ آفتاب صحافت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم مجید نظامی نے تحریک آزادی کے دیگر کارکنوں سے مشاورت کی جن میں پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ پروفیسر ڈاکٹر منیر الدین چغتائی‘ پروفیسر اے آر خان‘ سردار محمد چوہدری‘ میاں عزیز الحق قریشی اور شاہد رشید شامل تھے۔ باہمی غور و خوض کے بعد یہ اصحاب اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان حالات میں نئی نسل کو محض درسی کتب کے مطالعہ تک محدود رکھنے کی بجائے دین اسلام کی اعلیٰ و ارفع اقدار و روایات اور اسلامی تاریخ کی قابل فخر شخصیات کی جرأت ایمانی اور کارہائے نمایاں سے روشناس کرایا جائے نیز ان کی ذہنی و اخلاقی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ ان کے دل و دماغ میں اپنے دین‘ ملک اور قوم کے حوالے سے ایک احساسِ تفاخر پیدا ہو جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ اس مقصد کے لئے موسم گرما کی تعطیلات کے دوران ایک ماہ کے دورانیے پر مشتمل سمر سکول کے نام سے ایک تعلیمی و تربیتی پروگرام شروع کیا جائے۔ اس پر محترم مجید نظامی نے کہا کہ اسے صرف سمر سکول کہنا کافی نہیں‘ بہتر ہو گا کہ اسے نظریاتی سمر سکول کہا جائے۔ اُن کی اس تجویز سے تمام اصحاب نے اتفاق کیا اور یوں 2002ء میں پہلا نظریاتی سمر سکول منعقد کیا گیا۔ اس سکول کا ماٹو ’’پاکستان سے پیار کیجئے‘‘ طے پایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کے 19تعلیمی سیشن کامیابی سے انعقاد پذیر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز منعقدہ تقریب تقسیم اسناد کی صدارت تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے کی جبکہ مہمانِ خاص سابق صوبائی وزیر تعلیم میاں عمران مسعود تھے۔
چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے اپنے صدارتی کلمات میں طلبا و طالبات کو سیرت رسول اکرم حضرت محمد مصطفیؐ کے مطالعہ اور اپنی زندگیاں اسوۂ رسولؐ کے مطابق استوار کرنے کی تاکید کی جس سے انسان کے اندر تکریم انسانیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ آپؐ نے اپنی امت کو حصول علم کی ترغیب دی‘ لہٰذا آپ نے علم کے ذریعے ہی اسلام کے اس قلعہ یعنی پاکستان کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
میاں عمران مسعود نے کہا کہ ان بچوں کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ ہو گیا ہے کہ ان میں حب الوطنی کے جذبات کس قدر راسخ ہو چکے ہیں۔ مجھے ان میں حد درجہ خود اعتمادی دکھائی دے رہی ہے جس کے لئے ان کے اساتذۂ کرام مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے اس امر پر اظہار اطمینان و مسرت کیا کہ محترم مجید نظامی نے جس مشن کا آغاز کیا تھا‘ وہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ پاکستانیت کی ایک مضبوط علامت ہے اور یہ قوم سازی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کر رہا ہے۔ ہمیں اپنی نسل نو کے لئے ایسا نصاب تعلیم تیار کرنا چاہیے جو انہیں سچا پاکستانی بنا دے‘ جو اپنی تاریخ اور اسلاف کے کارناموں سے آگاہ ہو۔ نظریاتی سمر سکول کی کوآرڈینیٹر پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے اپنے خطاب میں بچوں سے کہا کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘ آپ نے پاکستان کو کبھی نہیں بھولنا۔ تقریب میں بچوں کے والدین بھی موجود تھے جنہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے نظریاتی سمر سکول کے انعقاد پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی انتظامیہ کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اساتذۂ کرام نے ہمارے بچوں کے قلب و روح میں پاکستان کی محبت اور اس کی خدمت و حفاظت کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھر دیئے ہیں۔ وہ اپنی تاریخ‘ اقدار اور تہذیب و ثقافت سے آگاہ ہو گئے ہیں جن سے عام بچے بے خبر ہیں۔
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے سکول کا 19واں تعلیمی سیشن کامیابی سے مکمل ہونے پر اپنی ساری ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ہم رہبر پاکستان محترم مجید نظامی مرحوم کے وضع کردہ رہنما اصولوں پر اپنے چیئرمین جناب محمد رفیق تارڑ اور وائس چیئرمین جناب پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کی زیر قیادت گامزن ہیں۔ اُنہوں نے بطور خاص نوائے وقت گروپ آف پبلی کیشنز کی ایڈیٹر انچیف محترمہ رمیزہ مجید نظامی کا شکریہ ادا کیا جن کی ہدایت پر روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن میں نظریاتی سمر سکول کی سرگرمیوں کو بھرپور کوریج دی جاتی رہی۔ اُنہوں نے میاں عمران مسعود کی آمد پر ان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنی وزارت کے دوران اس قومی نظریاتی ادارے کے اغراض و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے بہت تعاون کیا تھا۔ اُنہوں نے نظریاتی سمر سکول کے اساتذۂ کرام‘ گیسٹ آور میں تشریف لانے والی مہمان شخصیات‘ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب‘ پاکستان رینجرز (پنجاب)‘ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی‘ لاہور میوزیم‘ گریٹر اقبال پارک اتھارٹی‘ ہلال احمر‘ ہینگ ٹین سمیت ان تمام اداروں سے تہہ دل سے اظہار سپاس کیا جنہوں نے نظریاتی سمر سکول کو کامیاب بنانے کی خاطر ٹرسٹ سے بھرپور تعاون کیا۔ تقریب کے اختتامی لمحات میں اساتذۂ کرام اور طلبا و طالبات میں اسناد تقسیم کی گئیں اور بچوں نے مہمانانِ گرامی کو مقبولِ عام ملی نغمے ’’ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار‘‘ کی گونج میں رخصت کیا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024