بھارت مخلص ہو تو دوطرفہ مذاکرات سے پورے خطے کے امن و استحکام کا راستہ نکالا جاسکتا ہے
پاکستان اور بھارت کے کرتارپور راہداری پر مذاکرات‘ پاکستانی وفد کی نیک تمنائیں اور بھارتی وفد کا امن کا پودا لگانے سے گریز
کرتارپورراہداری منصوبے پر پاکستان اور بھارت کے مابین ہونیوالے مذاکرات کے دوسرے دور میں مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے اور دونوں ممالک معاہدے کے 80 فیصد نکات پر متفق ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کرتارپور راہداری منصوبے پر پاکستان بھارت مذاکرات کا دوسرا دور گزشتہ روز واہگہ بارڈر پر ہوا جس میں 13 رکنی پاکستانی وفد کی قیادت ترجمان دفتر خارجہ اور ڈائریکٹر جنرل سارک و سائوتھ ایشیاء ڈاکٹر محمد فیصل نے کی جبکہ آٹھ رکنی بھارتی وفد کی نمائندگی جوائنٹ سیکرٹری خارجہ دیپک متل نے کی۔ پاکستانی اور بھارتی حکام نے کرتارپور راہداری کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے کیلئے معاہدے کے مسودے پر تبادلہ خیال کیا‘ مذاکرات کے بعد ڈاکٹر محمد فیصل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کوشش جاری ہے‘ مثبت پیش رفت ہوئی ہے‘ دونوں ممالک میں 80 فیصد نکات پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ تاہم عالمی قوانین کے تحت مکمل اتفاق تک تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے اس معاملہ پر بھارت سے ایک میٹنگ اور کرنی پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے امن کا پودا لگا دیا ہے۔ امید ہے کہ مذاکرات سے مثبت نتائج سامنے آئینگے۔ انکے بقول باقی کے معاملات طے کرنے کیلئے آخری میٹنگ ہو گی۔ کرتارپور راہداری امن کیلئے ہے اور اس پر وزیراعظم کے وژن کے مطابق کام جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق گورونانک کی سالگرہ پر کرتارپور راہداری کھولی جارہی ہے جس پر 70 فیصد کام کمل ہوچکا ہے۔
کرتارپور راہداری منصوبے پر مذاکرات کا پہلا مرحلہ 14 مارچ کو بھارت میں اٹاری کے مقام پر شروع ہوا تھا جس میں ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کی قیادت میں 18 رکنی پاکستانی وفد نے شرکت کی تھی۔ گزشتہ روز مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے اختتام پر محمد فیصل اور انکے وفد کے ارکن واہگہ پر امن کا پودا لگانے آئے تو وہاں بھارتی حکام موجود نہیں تھے۔ مذاکرات میں راہداری منصوبے سے متعلق مختلف امور پر بات ہوئی جس میں بھارت سے آنیوالے سکھوں کی رجسٹریشن‘ ویزے کے طریق کار اور معیار کا معاملہ بھی شامل تھا۔ اسی طرح مذہبی رسومات کیلئے آنیوالے سکھ یاتریوں کیلئے کرنسی کی تعداد پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور راہداری کے افتتاح کی تقریب کی تاریخ کے تعین کا معاملہ بھی زیرغور آیا۔ منصوبے کی تکمیل کیلئے پاکستان کی جانب سے سڑک کی تعمیر اور دریائے راوی پر پل کی تعمیر کا کام بھی کافی حد تک مکمل ہوگیا ہے۔
بلاشبہ امن‘ ترقی اور خوشحالی اس خطہ کے عوام کی ضرورت ہے جس کیلئے خطے کے تمام ممالک یکسو ہوں اور ہر فیلڈ میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے حالات سازگار بنائے رکھیں تو امن‘ ترقی اور خوشحالی کی منزل آج بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر نریندر مودی اور دوسری بھارتی لیڈر شپ خطے کی ترقی و خوشحالی کیلئے فی الواقع فکرمند اور مخلص ہو تو وہ شملہ معاہدہ کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات باہمی مذاکرات کے ذریعے خوش اسلوبی سے طے کرکے دونوں ممالک کے عوام کو خوشحالی اور امن و آشتی کی منزل سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ پاکستان نے تو اس معاملہ میں بھارت کے ساتھ ہمیشہ نیک خواہشات کا ہی اظہار کیا ہے اور دوطرفہ مذاکرات سمیت کسی بھی علاقائی اور عالمی فورم پر باہمی تنازعات کے حل کیلئے ہمیشہ آمادہ رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر بھارتی لیڈران نے ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے پاکستان کی تشکیل خوشدلی سے قبول کرلی ہوتی اور تقسیم ہند کے فارمولہ کے مطابق مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے خودمختار ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی راہیں مسدود نہ کی ہوتیں تو پاکستان اور بھارت کے مابین کسی قسم کے اختلافات کی گنجائش نہ نکل پاتی اور انگریز سامراج سے آزادی کے بعد اس خطے کے عوام کی خوشحالی اور اقتصادی استحکام کی منزل حاصل کرکے یہ دونوں ممالک آج سے سات دہائی قبل ہی خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرچکے ہوتے مگر امن کے ساتھ رہنا اور اس ناطے سے پورے خطے کو امن و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہوتے دیکھنا اکھنڈ بھارت کا ایجنڈا رکھنے والے ہندو لیڈران کی سرشت میں ہی شامل نہیں تھا چنانچہ انہوں نے پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے خوشدلی سے قبول نہ کرکے اور اپنے توسیع پسندانہ مقاصد کی تکمیل کی خاطر کشمیر کا تنازعہ کھڑا کرکے علاقائی امن کو تاراج کرنے کا خود ہی راستہ ہموار کیا اور پھر کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کرنیوالی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اختیار کرکے پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھانے کا راستہ بھی نکال لیا۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ بھارت کی ہر حکومت پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھانے کی پالیسی پر ہی کاربند رہی ہے اور اس مقصد کے تحت ہی کانگرس آئی اور بی جے پی سمیت ہر بھارتی سیاسی جماعت اور اسکے لیڈران نے پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھانے کے منشور کو حصول اقتدار کی سیڑھی بنالیا جس میں پاکستان پر جنگیں مسلط کرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ اس ایجنڈے کے تحت ہی پاکستان کو 1971ء کی جنگ میں سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا گیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی تاراج کرنے کیلئے سازشیں شروع کر دی گئیں۔ ان بھارتی سازشوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور آج بھارتی وزیراعظم مودی کے علاوہ بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کرتے نظر آتے ہیں جبکہ مودی کے دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پاکستان کے بارے میں انکے جارحانہ عزائم مزید بڑھ گئے ہیں۔ مودی سرکار نے ایک جانب تو بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا ناطقہ تنگ کر رکھا ہے اور دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے نئے ہتھکنڈے اختیار کرلئے گئے ہیں۔ گزشتہ روز بھی سری نگر میں اجوری مدھل کے ایک نوجوان کشمیری طالب علم کو ہندو انتہاء پسندوں نے تشدد کرکے قتل کردیا ہے جبکہ پلوامہ کے علاقہ ترال میں تلاشی اپریشن کے دوران متعدد کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
اگر قیام پاکستان سے اب تک کی پاکستان بھارت تعلقات کی تاریخ کھنگالی جائے تو وہ بھارتی گیدڑ بھبکیوں‘ بدعہدیوں اور یکطرفہ اشتعال انگیزیوں سے بھری نظر آئیگی۔ نریندر مودی چونکہ خود بھی پاکستان دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جو سانحۂ سقوط ڈھاکہ کی نوبت لانے والی بھارتی پروردہ عسکری تنظیم مکتی باہنی کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہیں اس لئے ان کا پورا عرصہ اقتدار پاکستان کے ساتھ جنگی جنون بڑھانے میں ہی گزرا ہے جبکہ انہوں نے پاکستان دشمنی کا کارڈ بھارتی انتخابات میں استعمال کرکے اپنی وزارت عظمیٰ کی دوسری ٹرم کی بھی راہ ہموار کی اور دوسری بار بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے پاکستان کے بارے میں مزید معاندانہ رویہ اختیار کرلیا اور وزیراعظم پاکستان کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنے سے بھی گریز کیا۔ابھی تو وزیراعظم عمران خان کا وہ جذبہ بھی دنیا کی آنکھوں سے محو نہیں ہوا جب انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد مودی کے مبارکبادی پیغام کے جواب میں انہیں کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات کی کھلی پیشکش کی تھی اور پھر یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان بھارت وزراء خارجہ کی نیویارک میں باضابطہ ملاقات کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ یہ ممکنہ پاکستان بھارت مذاکرات کس نے سبوتاژ کئے‘ جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر جمع ہونیوالی عالمی قیادتیں بھی اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارتی سکھوں کیلئے کرتارپور راہداری کھولنے کا عندیہ دے کر بھارت کیساتھ خیرسگالی اور پرامن ماحول میں رہنے کا ہی پیغام دیا مگر اس معاملہ میں بھی مودی سرکار کی جانب سے رعونت بھرا پاکستان مخالف طرز عمل اختیار کیا گیا‘ جسکی پوری د نیا گواہ ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جس بھارت کی جانب سے یوم پاکستان سے دو روز قبل سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی کے کیس میں ایک قطعی متعصبانہ اور انتہاء پسند ہندو ریاست کی نمائندگی کرنیوالے عدالتی فیصلہ کے تحت مسلمانوں کے قاتل ہندوئوں کو بری کیا گیا‘ اسکے وزیراعظم مودی نے یوم پاکستان کے روز وزیراعظم پاکستان کو تشدد اور دہشت گردی سے پاک خوشحال اور پرامن‘ ترقی یافتہ خطے کے قیام کا پیغام ٹویٹ کیا جو ریاکاری کا شاہکار تھااور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس پر بھی مودی کو کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنے کی پیشکش کی جو پاکستان کی امن کی خواہش میں اخلاص کا بین ثبوت ہے۔ اسی طرح صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی قومی پریڈ کی پروقار تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بھارت کو امن کے ساتھ رہنے اور پاکستان کے پرامن قوم ہونے کا ہی پیغام دیا تھا تاہم بھارتی عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ باور کرانا بھی انہوں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان اپنے دفاع سے غافل ہرگز نہیں ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ قومی پریڈ کے موقع پر عساکر پاکستان کے زیراستعمال ہر قسم کے جدید‘ روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش کرکے اور پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی استعداد و مشاقی کا نظارہ کراکے بخوبی کیا گیا۔
بلاشبہ پاکستان ایک پرامن قوم ہے اور علاقائی امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی بھی اس کا مطمحٔ نظر ہے مگر دفاع وطن کے تقاضوں سے غافل ہرگز نہیں۔ مودی سرکار جمہوری‘ پرامن‘ ترقی پسند اور خوشحال ترقی یافتہ خطے کے قیام کیلئے ایک قدم بڑھائے گی تو اس مقصد کیلئے ہماری جانب سے انہیں بلاشبہ دو قدم بڑھتے نظر آئیں گے۔گزشتہ روز واہگہ بارڈر پر پاکستان نے اسی جذبے کے تحت کرتارپور راہداری کو اپریشنل کرنے کیلئے دوطرفہ مذاکرات کا انعقاد کیا ہے جو درحقیقت بھارت کی جانب سے اس ایشو پر تعطل کا شکار کئے گئے مذاکرات کی بحالی کی جانب عملی پیش رفت ہے اور پاکستانی وفد کے قائد نے ان مذاکرات کو مثبت پیش رفت قرار دیکر پاکستان کی جانب سے خیرسگالی کا پیغام بھی مثبت انداز میں دیا۔ اسکے برعکس بھارتی رویہ وہی ’’میں نہ مانوں‘‘ والا ہی برقرار رہا جس کے وفد نے مذاکرات کے بعد واہگہ بارڈر پر پاکستانی وفد کے ساتھ امن کا پودا لگانے سے بھی گریز کیا۔ اس سے بڑی بھارتی منافقت اور کیا ہو سکتی ہے اس لئے ہمیں کسی بھی مرحلے کے اور کسی بھی سطح کے مذاکرات میں بھارتی سازشوں اور منافقانہ پالیسیوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ بھارت فی الواقع مخلص ہو تو دونوں ممالک کے امن مذاکرات پورے خطہ کیلئے امن اور استحکام کی ضمانت بن سکتے ہیں۔
1