افغان امن عمل، اعتماد سازی کی ضرورت
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت امریکہ، روس اور چین نے افغانستان میں پائیدار امن کی ضرورت اور مستقل سیز فائر کی حمایت کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ ہم اس معاملے میں مزید وسعت پیدا کرنے پر رضامند ہیں۔ اس فورم میں مزید بین الاقوامی طاقتوں کو شامل کیا جائے گا۔
افغان مسئلہ کے حل کے حوالے سے مثبت پیشرفت ہو رہی ہے۔ امریکہ اور طالبان سنجیدگی سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ سوائے انخلا کی تاریخ کے اکثر معاملات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ افغان انتظامیہ مذاکرات کوسبوتاژ کرنے کیلئے سرگرم تھی مگر امریکہ کی طرف سے ستمبر میں افغانستان میں ہونیوالے انتخابات تک معاہدے کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ سنایا تو افغان انتظامیہ ہوش کے ناخن لینے پر مجبور ہو گئی۔ امریکہ حالات جوںکے توں چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو افغان حکمران ایک ہفتہ بھی کابل میں رٹ قائم رکھنے کے قابل نہیں ہونگے۔ لہٰذا وہ بھی مسئلہ کے حل میں سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ایک جامع پروگرام پر مشتمل فریم ورک تیار کیا جائے گا جو سیاسی مستقبل کیلئے ہو گا یہ تمام افغانیوں کیلئے قابل قبول بھی ہو گا۔ یہی بہتر لائحہ عمل ہے۔ گزشتہ ہفتے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے دوران طالبان اور افغان انتظامیہ نے سیزفائر پر اتفاق کیا تھا مگر اس کو عملی شکل نہیں مل سکی۔ طالبان اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے دھماکے اور حملے کر رہے ہیںجبکہ افغان فورسز شدت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مذاکرات جس مرحلے میں پہنچ گئے، اس سے افغان مسئلہ کے حل کی قوی امید ہے۔ اس دوران فریقین کی جانب سے اعتماد سازی کے اقدامات پر اتفاق اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔