منگل ‘ 12؍ ذیقعد 1440ھ‘ 16؍جولائی 2019ء
سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی کا 114 واں یوم پیدائش 15 جولائی کو منایا گیا
چودھری محمد علی جالندھر میں 1905ء میں پیدا ہوئے۔ متحد ہ ہندوستان کے سینئر بیوروکریٹس میں سے تھے، جن کی انتظامی قابلیت کا ہندو ہی نہیں انگریز بھی لوہا مانتے تھے۔ پاکستان کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ 1961ء میں وفاقی وزیر خزانہ بنے۔ 1955ء میں دستور ساز اسمبلی کے رکن رہے۔
/11 اگست 1955ء سے /12 ستمبر 1956 ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ ان کا اہم کارنامہ پاکستان کا پہلا آئین ہے۔ جس پر مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں نے بھی اعتماد کا اظہار کیا تھا مگر ہمارے ہاں مقتدر لوگ ایک ایسا آئین نہیں چاہتے جو ملک کی ساری اکائیوں کا ترجمان ہونے کے ساتھ پاکستان کے قیام کے مقاصد بھی پورے کرتا ہو۔ 1956ء کے آئین کے تحت انتخابات کے تیاریاں ہو رہی تھیں کہ سازشی متحرک ہوئے ۔ چودھری محمد علی بڑے وضع دار سیاستدان تھے۔ اقتدار کے لیے اکھاڑ پچھاڑ میں یقین نہیں رکھتے تھے چنانچہ از خود ہی مستعفی ہو گئے۔ اُس کے بعد ملک کا جو حال ہوا اُس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اتنا شریف ، شائستہ اور جمہوریت میں گہرا یقین رکھنے والا سیاستدان پھر نہیں ملا۔
تقسیم سے قبل 1946ء کے انتخابات کے بعد جب وزارت سازی کا مرحلہ آیا تو کانگرسیوں نے چال چلی کہ مسلمانوں کو وزارتِ خزانہ دی جائے کیونکہ مسلمان حساب کتاب میں کور ہوتے ہیں۔ ان کی وزارت ناکام ہو جائے گی اور ہمیں تماشہ لگانے اور یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ مسلمانوں کی ترجمان جماعت مسلم لیگ پاکستان نہیں چلا پائے گی۔ قائد اعظم اور لیاقت علی وزارت خزانہ کا قلمدان لینے میں گومگو کی کیفیت سے دوچار نظر آئے تو اس وقت چودھری محمد علی نے آگے بڑھ کر لیاقت علی خاں سے کہا کہ وہ بالاصرار وزارتِ خزانہ ہی لیں۔
قصہِ مختصر چودھری محمد علی نے بطور سیکرٹری خزانہ ایسا بجٹ دیا کہ ہندو سیٹھوں کی چیخیں نکل گئیں اور پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کو کوسنے لگے کہ اُنہوں نے وزارتِ خزانہ مسلم لیگ کو کیوں دی!
٭٭٭٭
انگلینڈ پہلی بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بن گیا‘ نیوزی لینڈ کو سپراوور میں شکست۔
گزشتہ روز ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ نے کھیل کے دوران جو سنسنی پیدا کی‘ اس سے نہ صرف کرکٹ کے شائقین بلکہ پوری دنیا کو دونوں ٹیموں نے محظوظ کیا۔دونوں ٹیموں کے درمیان آخری بال تک کھینچا تانی جاری رہی۔ بالآخر انگلینڈ نے کپ اپنے نام کرلیا۔
ورلڈ کپ کے آغاز میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا‘ قوم اسے 92ء والے ورلڈ کپ سے تعبیر کررہی تھی اور پرامید تھی کہ جو کچھ پاکستان کے ساتھ 2019ء کے ورلڈ کپ میں ہورہا ہے‘ وہی کچھ 92 ء میں بھی ہوا تھا ‘ لہٰذا پاکستان فائنل ضرور کھیلے گا۔ لیکن بھارت نے انگلینڈ سے میچ ہار کر ٹیم سمیت پوری قوم کو جھنجوڑ کر 92ء کے سہانے خواب سے جگا کر 2019ء میں لاکھڑا کیا۔
پھر پوری قوم ’’اگر‘ مگر‘‘ اور ’’ایسا ویسا‘‘ ہونے سے امیدیں باندھ بیٹھی۔ لہٰذا انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کو ہرا کر انکی ’’اگر مگر‘‘ کی امیدیں بھی توڑ دیں اور پاکستان کیلئے سیمی فائنل تک رسائی ناممکن بنا دی۔ بہرحال کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے‘ لیکن جس طرح پاکستانی ٹیم بھارت سے ہاری‘ وہ پوری قوم کیلئے ندامت کا باعث بنی ہوئی ہے۔
کپتان سرفراز احمد کی میچ کے دوران جمائیوں سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ میچ جیتنے کیلئے کتنے کوشاں ہیں۔ اگر ٹیم شروع سے ہی محنت کرتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پاکستان کیلئے 92ء والے حالات آخر تک رہتے۔ پاکستانی ٹیم کو دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے کہ فلاں ٹیم ہار گئی تو ہم بہتر پوزیشن میں آجائینگے‘ کے مخمصے سے نکل کر ملک کی جیت اور قوم کی امنگوں اور خواہش کے مطابق کھیلنا چاہیے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ورلڈ کپ کا میدان نہ مار سکے۔ بہرحال انگلینڈ کو ورلڈ چیمپئن بننے پر مبارک باد ‘ جس طرح دونوں ٹیموں نے کھیل پیش کیا‘ اس سے پوری دنیا محظوظ ہوئی اور یہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ میچ ٹائی ہوا اور سپراوور پر ہار جیت کا فیصلہ کیا گیا۔ بہرحال سسپنس بھرا یہ کھیل ہمیشہ دنیا کو یاد رہے گا۔
٭٭٭٭
بلاول کی پہلی شادی ناکام اور دوسری کامیاب ہو گی۔ پیش گوئی
جن صاحب نے یہ پیش گوئی کی ہے ہم اُن کا اسم گرامی لکھنے سے تو قاصر ہیں البتہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیش گوئی اُن کے دل و دماغ میں نہ جانے کب سے کھول رہی تھی کہ بلاول کی شادی کی خبر آتے ہی باہر اُبل پڑی۔ اچھا ہوا ، ورنہ مزید اندر رہتی تو درد قولنج کا باعث بن سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ اگلی گھڑی کیا ہونے والا ہے۔ پیش گو ماہر علم الاعداد ہیں اور نام بھی مسلمانوں جیسا ہے۔ اس لیے جب کوئی مسلمان ایسی باتیں کرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف اپنی حد سے آگے نکل کر خدائی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غالباً پیش گوئی کو معتبر بنانے کے لیے پہلی شادی کی ناکامی اور دوسری کی کامیابی کی نوید دی ہے۔ آپ تقدیر لکھنے پر تو مامور نہیں ہیں۔
طبی علوم کا سہارا لیتے ہوئے ناقابل یقین دعوے کرنے لگتے ہیں۔ بلاول کے خاندان میں دوسری شادی کی سرے سے کوئی روایت نہیں۔ دادا حاکم علی زرداری نے بھی ایک ہی شادی پر اکتفا کیا ۔ والد محترم آصف علی زرداری صاحب پر بڑی منہ زور جوانی دیکھی گئی، لیکن بے نظیر مرحومہ سے شادی کے بعد تانک جھانک سے بھی توبہ کر لی، مرحومہ کی رحلت پر شرعاً شادی پر کوئی پابندی نہیں تھی لیکن اعلانیہ کوئی نام سامنے نہیں آیا۔ بلاول ذاتی طور پر متحمل اور سرد مزاج نوجوان ہیں پھر جب جوان بہنیں گھر ہوں تو آدمی دوسری شادی کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچتا ہے! وہ ملک گیر پارٹی چلا رہے ہیں۔ وہ ایسی شادی کیوں کریں گے جس کے ساتھ دوسری کا TAG لگا ہو گا۔ اگر ہمیں آپ کی پیش گوئی پر یقین ہوتا تو ہم بلاول صاحب کومشورہ دیتے کہ وہ سرے سے پہلی شادی نہ ہی کریں۔