آج ایک چھوٹی سی خبر نظر سے گزری کہ پرائمری لیول کی ایک درسی کتاب میں سے یہ الفاظ کہ ’’ نبی کریم ؐ کا قول ہے ، کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘ کو تبدیل کر اس طرح کر دیا گیا ہے کہ ’’مشہور قول ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی تبدیلی ہے اور اس طرح کی خبریں ہمیں اکثر پڑھنے کو ملتی ہیںکہ کہیں احادیث مبارک کو سکولوں کی کتابوں سے حذف کر دیا گیا ہے تو کہیں اصحابہ کرام اور مشاہیر اسلام کے متعلق اسباق کو ’’ مغربی ہیروز‘‘ کے متعلق اسباق سے تبدیل کر دیا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا یہ سب بس بے دھیانی میں ہو جاتا ہے یا یہ سب سوچا سمجھا ہے؟ کہیں ہم اسلام کے بارے میں اپنے بچوں کو سکھاتے ہوئے شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیںتو کہیں پنجاب کے نام پر بھگت سنگھ اور اب راجہ رنجیت سنگھ کے غم میں دبلے ہوتے نظر آتے ہیں کہ بھگت سنگھ اور راجہ رنجیت سنگھ کے بغیر تو پنجاب کا کلچر اور پنجابیت نا مکمل ہے۔ حالانکہ پنجاب کے کلچر میں پردہ،شرم و حیا اور صوفیا کرام سمیت اور بہت کچھ بھی تھا جو ہمارے کچھ مخصوص میڈیا اور لبرلز کو نہ تو یاد ہے اور نہ اس سب کی ترویج کی جاتی ہے ۔بچوں کی درسی کتب ہوں ، کالجز کے فنکشنز یا میڈیا ، ہمیں سب سے پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم پنجابی یا پاکستانی پہلے ہیں یا مسلمان؟ اگر ہم مسلمان پہلے ہیں تو پھر اسلام ہمارے لیے ضابطہء حیات ہے اور پاکستان بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں اور اپنے بچوں کی تربیت کریں نہ کہ یہ کہ ہم پنجابی کلچر یا انسانیت کے نام پراپنے بچوں کے سامنے مسلمانوں کے دشمنوں کو ہیرو بنا کر پیش کریں۔ یہ سب آخر ہے کیا اور کیوں ہو رہا ہے؟
دراصل اس قسم کی چیزیں ’’ غلطی‘‘ سے نہیں ہو جاتیں بلکہ یہ سب ایک بڑی اور وسیع مہم کا سوچا سمجھا حصہ ہے اور ہمارے عوام اور میڈیا کے کچھ حصے جانتے بوجھتے ہوئے اور کچھ ناسمجھی میں اسلام اور پاکستان کیخلاف چھیڑی جانے والی اس ’’ ففتھ جنریشن وار ‘‘ (5GW) کا مہرہ بنے ہوئے ہیں ، جس میں ہمارے معاشرے اور نظریات کے تانے بانے ادھیڑ کر ہمیں سیاسی، معاشرتی، نظریاتی اور مذہبی طور پر شکست دینے کی غرض سے ہماری آنے والی نسل کی سوچ، نظریات اور احساسات تباہ کیے جا رہے ہیں۔ شروع زمانے میں جنگوں میں فتح کا دارومدار انسانی طاقت اور بہادری پر ہوتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں جسمانی طاقت کی جگہ آتشیں اسلحے اور توپخانے نے لے لی۔ یہ ’’ سیکنڈ جنریشن وار‘‘ تھی۔ دوسری جنگ عظیم نے ’’ تھرڈ جنریشن وار‘‘ کو جنم دیا جس میں آتشیں اسلحے کے علاوہ بحری اور فضائی طاقت کے مربوط مظاہرے کے ساتھ پراپیگنڈہ اور میڈیا کی جنگی اہمیت اجاگر ہوئی۔ یہ جنگیں بہر طور آمنے سامنے لڑی جاتی تھیں اور جنگ لڑنے والے ممالک کی زمین میدان جنگ ہوتی تھی۔ اسکے بعد ’’ فورتھ جنریشن وار‘‘ کا زمانہ آیا۔ ویت نام کی جنگ سے شروع ہونیوالی اس ڈاکٹرائن کی ترقی یافتہ شکل افغانستان کی جنگ میں نظرآئی۔ اس قسم کی جنگوں میں سب سے پہلے میدان جنگ کو کسی اور ملک میں منتقل کیا گیا۔ اسکے بعد کوشش کی گئی کہ جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے والوں کی اکثریت بھی اپنے ملک کی نہ ہو تاکہ حملہ آور کا کم سے کم جانی نقصان ہو۔ آجکل کے زمانے کی ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ میں نہ تو اسلحہ بارود استعمال ہوتا ہے اور نہ اعلان جنگ کیا جاتا ہے بلکہ یہی پتہ نہیں چل رہا ہوتا کہ کون در حقیقت کس پر حملہ آور ہے۔ حملہ آور قوم کا اہم ترین اسلحہ ’’ پراپیگنڈہ‘‘ اور ’’ آزاد میڈیا‘‘ ہوتا ہے ، جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ دکھاتا ہے۔ حملہ کی زد میں آنے والی قوم میں سے ہی کچھ لوگ میڈیا میں، خبروں ، کالمز اور ٹالک شوز میں اور کبھی NGOs کی صورت میں ’’لبرلزم ‘‘ اور ’’ انسانیت ‘‘ کے نام پر اپنی ہی قوم کی قومیت اور نظریے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ عزت اور بے غیرتی میں فرق صرف احساس کا ہوتا ہے اور اس جنگ کا مقصد کسی قوم میں اس ’’ احساس ‘‘ کو ختم کر دینا ہوتا ہے اور اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار جسے آپ اس جنگ کا ایٹم بم یا ’’ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کہہ سکتے ہیںوہ یہ ہے کہ اسکولوں کی درسی کتب، تفریحی اور عوامی دلچسپی کے مقامات اور میڈیا اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے سے آنیوالی نسل کی بنیادی سوچ ہی تبدیل کر دی جائے اور مذہب اور وطن سے محبت کی بجائے انکے دماغوں میں’’ انسانیت ‘‘کے نام پر وطن اور مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات کے بیج بو دیے جائیں جو آگے چل کر نفرت اور بیزاری کے درخت بن جائیں۔ اسلام کے اندر ہی ایک ایسا ’’ اسلام‘‘ پیدا کر دیا جائے جو اصل اسلام کو ختم کر دے اور اسلام کے نام پر قائم ہونیوالے واحد ملک پاکستان کے بارے میں نئی نسل کے ذہنوں میں ایسے شکوک پیدا کر دیے جائیں کہ وہ نظریہ پاکستان بھول کر اس بحث میں پڑے رہیں کہ پاکستان بننا بھی چاہئیے تھا کہ نہیں اور آخر یہ سرحد کیوں بن گئی؟
یہ سب باتیں کوئی ’’ دور کی کوڑی ‘‘ نہیں ہے بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک سمیت امریکہ کے آرمی اور نیول وار کالج اور ائیر فورس کا ’’ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی‘‘ فتھ جنریشن وار کی تکنیک کو ’’ نان لیتھل ویپن‘‘ (NLW) یعنی ’’ایسا ہتھیار جو دشمن کی جان نہیں لیتا ‘‘ کے طور پر اپنا چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے دارلحکومت تل ابیب میں 2006 میں پیش کردہ ’’ نیو مڈل ایسٹ‘‘ کا تصور ہو یا پھر ’’ رینڈ کارپوریشن امریکہ ‘‘ کی رپوٹ ’’ سِول اینڈ ڈیموکریٹک اسلام‘‘ جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کر کے اسلام کی روح اور پاکستان کے نظریے کا خاتمہ کرنے کی غرض سے کس طرح ہماری ہی درسی کتب، چینلز، میڈیا اور اور کچھ ’’ لبرلز‘‘ اور NGOs کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے ملک میں اپنے نظریات کا پرچارکر کے اسلام اور ’’ پاکستانیت‘‘ پر حملہ کرنا ہے۔ہمارے سکول بند نہیں کروانے بلکہ ہمارے سکولوں کے ’’ نصاب ‘‘ کو تباہ کرنا ہے۔اسی لیے آج ہماری مساجد تو اپنی جگہ پر قائم ہیں لیکن غیر محسوس طریقے سے ہمارا ہر گھر مندر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بظاہر بے ضرر نظر آنیوالے کارٹون ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں کو رام ، سیتا اور ارجن کے ’’ کردار کی عظمت‘‘ کا سبق دے رہے ہیں۔ صحابہ کرام کی بہادری کے قصے پڑھنے والی قوم کے بچے آج ’’ چھوٹا بھیم‘‘ ہنومان اور کرشن کی بہادری دیکھتے جوان ہو رہی ہے۔ جن والدین نے جہاد کے اصول ’’ فتح مکہ‘‘ سے سیکھے تھے ان کے بچوں کو جہاد کا واحد مطلب ’’ دہشتگردی‘‘ سکھایا جا رہا ہے۔ ہمارے خلاف چھیڑی گئی اس غیر اعلان شدہ لیکن مہلک جنگ کا ’’ میدان جنگ‘‘ ہمارا ہر گھر ہے اور اسکا جواب بھی ہمیں ہر گھر سے دینا ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں تو احساس تک نہیں کہ ہمارے دشمن ہم پر کہاں کہاں سے کس کس طرح سے حملہ آور ہیں۔حملہ روکنا اور پھر جوابی حملہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024