ارتقاء کو کسی صورت روکا نہیں جا سکتا۔ آپ اپنے موبائل کو دیکھ لیں، اس کا سفر کہاں سے شروع ہوا ، کہاں تک پہنچ گیااور ہنوز و بدستور جاری ہے۔اس میں آپ کو ریڈیو نظر آیا اس میں ،وی سی آر کی جدت ہے، ٹی وی اور اسی میں آپ کو کو کلنڈر اور گھڑی دستیاب ہے۔میں خود کاشتکاری بھی کرتا رہا ہوں۔گندم کی پیداوار کبھی سات آٹھ من فی ایکڑ ہوا کرتی تھی، آج گندم اور چاول کی پیداوار پچاس سے 60 من فی ایکڑ ہوتی ہے جبکہ بھارت میں اس سے بھی 20من زیادہ ہے۔ آپ جدت اور ارتقا کو بند اور اور پابند نہیں کر سکتے۔تحریک انصاف حکومت معیشت کو دستاویزی شکل دے رہی ہے۔اس کیخلاف تاجر برادری کی طرف سے سے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا ۔معیشت کو دستاویزی صورت میں کبھی تولانا ہے تو پھراب کیوں نہیں۔چھابڑی والا بھی شام کو اپنے نفع ونقصان اور اگلے دن کیلئے خریداری کا حساب کتاب کر تاہے۔یہی ڈاکومنٹڈ اکانومی ہے۔اس حوالے سے ہر کسی کو حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے، جو لوگ ٹیکس چوری میں ملوث نہیں وہ حکومت کے ہاتھ مضبوط بھی کر رہے ہیں۔ ہر نئی چیز جو ہمارے مزاج کے برعکس ہوتی ہے، وہ ہمیں عذاب نظر آتی ہے۔ جب ایک دکاندارچھ سوکی چیز تین ہزار میں فروخت کرتا ہے اور کاغذوں میں آٹھ سو یعنی اس پر دو سو روپے منافع ظاہر کرتا ہے۔ ایک بہت بڑا تاجراور سرمایہ کار اس کی روزانہ کی سیل پچاس لاکھ ہے۔ وہ پانچ لاکھ ظاہر کرکے اس پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ایسے حضرات خم ٹھونک کر سڑکوں پر آگئے ہیں۔کیونکہ حکومت درمیان میں چوری پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت نے بھی جو کہہ دیا حرف آخر نہیں،تاجر تنظیمیں نئے طریقہ کار میں بہتری کی تجاویز حکومت کو دیں،سرے سے مخالفت اور نئے سسٹم کا استرداد مناسب نہیں،آپ فیصلے ملک اور اپنے بچوں کے روشن مستقبل کو سامنے رکھ کر کریں۔انکے اشارہ ابرو پر جذباتی نہ ہوں جن کی دولت کا انت نہیں،جن کے کھربوں کے کاروبار جائیدادیں اور اکاؤنٹس بیرون ملک ہیں۔ اکانومی ڈاکومنٹڈ تو ہونی ہے، آپ آج کی حکومت کو پسپائی پر مجبور کرلیں گے مگر کل یہ کام تو ہونا ہی ہے تو آج کیوں نہیں۔ ایسے میں افواہ ساز فیکٹریاں بھی کھل جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں اپنی طرف سے کسی نے کہہ دیاآٹا اور میدہ ٹیکس لگنے سے مہنگا ہوگیا ہے۔نان بائیوں نے آئو دیکھا نہ تائو روٹی نا ن اور ڈبل روٹی کی قیمت بڑھا دی۔آٹا میدہ سستا ہونے کی مصدقہ اطلاعات پر بھی یہ لوگ قیمتوں میں کمی کی مزاحمت کرتے ہیں۔گویا یہ ’’گھر نوں سیانے‘‘ لوگوں نے بے جا ہیجان پیدا کردیا۔جہاں افواہ ساز فیکٹریاں بند ہونی چاہیے وہیں آٹے میدے کے ریٹ میں اضافہ کرنے والوں کو بھی تھوڑی تصدیق کر لینی چاہیے۔ اسکے ساتھ یہ گورننس کا بھی سوال ہے کہ حکومت کہاں اسکی رٹ کہاں اور توندوں والے لوگوں پر مشتمل پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہاں ہیں۔تاجر برادری کراچی میں دیکھ لیں کتنی خوشی سے الطاف اینڈ کمپنی کو بھتہ دیا کرتی تھی۔ باقی شہروں میں بھی بھتہ گیری کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اس کیلئے تو ’’عظیم قوم‘‘ تیار اور مطمئن ہے مگرحکومتی خزانے میں جائز طریقے سے پیسہ دینے سے انکاری ہے۔ چیئرمین سینٹ کے خلاف اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد لا رہی ہیں۔ حکومت کو بھی ڈپٹی چیئرمین کے خلاف الجھاؤپیدا کرنے کیلئے تحریک لانی پڑی ۔یہ اپوزیشن کو حکومت کا ترکی بہ جواب ہے جس کی حمایت نہیں کی جاسکتی تاہم اپوزیشن کو بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی اختلاف اپنی جگہ ، لیکن یہ اس حد تک بھی نہ چلے جائیں کہ مستقبل میں آج کی ا پوزیشن اور حکومت مل کے کسی تیسرے کے خلاف تحر یک چلاتی ہوئی نظر آئیں۔ ماضی کے بدترین مخالف جو اخلاقیات کی بھی حدیں عبور کرجایا کرتے تھے، آج مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تحریک انصاف حکومت کیخلاف دل و جان سے متحد ہیں ۔بظاہریہ تحریک انصاف کے خلاف علم بلندکیے ہوئے ہیں مگر ان کا اصل نشانہ وہ قوتیں ہیں جنہیںیہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ سیاست اور جمہوریت میں اختلافات رائے ایک فطری امر ہے مگران کا شیطان کی آنت کی طرح بڑھتے جانا خود اپوزیشن کے بھی کے مفاد میں نہیں ہے۔گو تحریک انصاف کی حکومت کے دوران مہنگائی ہوئی جس وجوہات بھی واضح ہیں مگر حکومت اپنی کارکردگی اور حسن اخلاق سے عوام کے دل جیت رہی ہے۔ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے رہنماء چودھری اعجاز کے دفتر جانا ہوا، وہ اور پارٹی کے دیگر کارکن انتہائی احترام سے پیش آئے حالانکہ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔خود وزیراعلیٰ بھی اجتماعات اور آفس میں لوگوں سے بڑے تپاک سے ملتے ہیں،وہ نہ صرف عوامی مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں بلکہ سرکاری ملازمین فلاح وبہبود کیلئے سرگرم رہ کر انکے اندر اپنی ذمہ داریوں میں لگن پیدا کررہے ہیں۔ملازمین مطمئن ہوں تو انکی کارکردگی دُگنا ہو جاتی ہے۔ میں اس حکومت کو غیر روایتی سمجھتا ہوں ۔تحریک انصاف غیر روایتی طریقے سے سیاست میں آئی۔ دھرنے اور اس کی تحریک غیر روائتی تھی اور ان کا طرز حکمرانی بھی غیر روایتی ہے ۔گورننس اور احتساب کا طریقہ بھی روایتی نہیں۔ کڑا اور غیرجانبدارانہ احتساب ہو رہا ہے ۔ کسی دباؤ مصلحت کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ بڑے بڑے لوگ پہلی بار جرائم کی وجہ سے جیلوں میں ہیں اور کئی کی آمد کے قید خانے منتظر ہیں ۔ یہ ساراکچھ روایتی سیاست میں کبھی نہیں ہوتا تھا ۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عوام کو حکومت کی پالیسیوں سے مہنگائی کی صورت میں مشکلات ضرور ہیں مگر عوام اب بھی مایوس اور ناامید نہیں ہیں جس کا اندازہ آپ اپوزیشن کے ویرانی کا منظر پیش کرتے اجتماعات اور مایوس کن جلسوں سے کرسکتے ہیں جبکہ کہ عمران خان کی ذاتی شخصیت کے حوالے سے طلسم میں کوئی فرق نہیں آیا وہ آج بھی جہاں جاتے ہیں بڑے جلسے کرتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024