باباجی گرونانک سرکار کا جنم دن قریب ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر کے پنجابیوں کیلئے یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے۔ پچھلے سال وزیراعظم عمران خان اور سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی انتھک کاوشوں سے آخرکار بھارت سرکار کو اس بات پر راضی کر لیا گیا کہ وہ تقسیم شدہ پنجاب کے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کرتارپور بارڈر کو سکھ زائرین کیلئے کھول دے۔ اس سلسلے میں اخراجات پاکستان ادا کرنے کو تیار ہے۔ دنیا بھر میں پانچ کروڑ سکھوں کی اس خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جس دن عمران خان اور جنرل باجوہ نے رسمی طور پر اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کر دیا یا یوں کہیے کہ یہ ایک جلتے ہوئے گرم پتھر پر پانی کا پہلا قطرہ تھا۔ ان دنوں راقم برطانیہ کے دورے پر تھا اور کچھ دنوں بعد کینیڈا جب واپس آیا تو خوبصورت یادوں کا میرے پاس ایک ذخیرہ تھا کیونکہ اس دورے کے دوران یورپ اور نارتھ امریکہ کی سکھ کمیونٹی سے ملاقاتوں اور تبادلہ خیال کا اتفاق ہوا اور یکدم یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ کرتارپور بارڈر کا بند گیٹ نہیں کھل رہا بلکہ دوٹوٹے ہوئے دل پھر سے آپس میں ملنے کو بے تاب ہیں۔ دراصل قیام پاکستان کے وقت ہندو بنیے کی سازش اور فطری مکار سوچوں نے پنجاب کے بھائی کو بھائی سے لڑا دیا یقینااس میں غلطیاں کچھ ادھر سے بھی ہوئیں اور کچھ فاش غلطیاں سکھوں کی اس وقت کی قیادت ماسٹر تارا سنگھ جی نے بھی کیں جس کا لامحالہ فائدہ بھارت سرکار کو ہوا کیونکہ تقسیم کے سازشی منصوبے میں ہندوستان کو تو کم تقسیم کیا گیا مگر پنجاب اور بنگال کو تقسیم کرکے کچھ لوگوں نے وقتی فوائد حاصل کیے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1965کی جنگ تک دونوں ملکوں کے بچھڑے ہوئے عوام گاہے بگاہے حیلے بہانوں سے آپس میں روابط میں رہے اور شیرِ پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ وڑائچ کے جنم دن اور برسی اور اسی طرح بابا گرونانک جی کی تقریبات کے موقع پر دونوں طرف سے عوام الناس کو آنے جانے پر کوئی خاص پابندی نہیں تھی مگر اس دوران پے در پے دونوں ممالک کے درمیان ہونیوالی جنگوں نے حالات اس قدر کشیدہ کر دیئے تھے کہ تقسیم پنجاب کی نفرت پھر سے جڑ پکڑنے لگی اور خاص طور پر مرحوم جنرل ضیاء الحق کے ساڑھے گیارہ سالہ جبر آمیز دور اور آمرانہ اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے مذہب کے نام پر عوام کے دلوں میں کدورتیں بھر گئیں جس کا فوری فائدہ آمر وقت کو یہ ہوا کہ لوگوں کی توجہ جمہوریت سے ہٹ کر مذہب اور انتہاپسندی کی طرف مبذول ہو گئی لیکن اسکے اثرات نے ہمارے معاشرے کو ایک تو انتہا پسندی کی طرف موڑ دیا اور دوسرے قومیت کے نظریئے پر بڑی شدید چوٹ پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ آج 72 سال بعد پنجاب کا ایک عام پنجابی خود کو پنجابی کہلوانے سے گریزاں ہے۔ قارئین! جھورے جہاز نے ابھی حال ہی میں ایک ریسرچ سروے میں کام کیا اور اس کا کہنا تھا کہ اگر ان تمام قبیلوں کے تعلق کو مان لیا جائے تو پنجاب میں باقی کوئی آباد ی نہیں بچتی اس لیے ہمیں منافقت اور احساسِ کمتری کا نقاب اتارنا ہوگا ،ہمیں پنجابی بولنا اس لیے ترک نہیں کرنا ہوگا کہ خدانخواستہ یہ پینڈوئوں اور جاہلوں کی زبان ہے۔ میں اکثر ازراہِ مذاق اپنے دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ دنیا بننا شروع ہوئی تو پہلے گائوں بنا تھا یا شہر یعنی پہلے مترانوالی معرضِ وجود میں آیا تھا یا نیویارک ؟ آج حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ پنجاب کی عظمت کے نشان پگ یا پگڑی کو ہوٹلوں کے دربان ویٹرز کے سر پر رکھ دیا جاتا ہے جبکہ دھوتی اور کرتہ اور اگر کوئی پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی پہن لے تو اس کو اپناتعارف کروانے تک بیٹھنا تو درکنار تقریب کے گیٹ پر روک لیا جاتا ہے اور اکثر میں نے اس احساس کمتری میں مبتلا لوگوں کے منہ سے یہ بات سنی ہے کہ پہلے پاکستانی ہیں اور ہم بڑے بھائی ہیں لہٰذا ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنی زبان ،اپنی تہذیب، لباس‘ ثقافت سب کچھ بھلا کر چھوٹے بھائیوں کی خواہشات پر قربان ہو جائیں۔قارئین حالات اس سے یکسرمختلف ہیںاور ہم بھی صوبائیت کے زہر کو ایک گالی سمجھتے ہیں مگر اسے بھی ہم اپنی تذلیل مانتے ہیں کہ ہر بار ہر موقع پر اس بڑے بھائی کو حقوق سلب کرنے والا سمجھا جائے ۔ ملکوں کی تاریخوں میں وفاق کی اکائیاں بڑے چھوٹے کی بنیاد پر نہیں اور نہ ہی آبادی اور رقبے کی بنیاد پر تقسیم ہوئی ہے۔ فرض کریں پاکستان کا سب سے معتبر پارلیمانی ادارہ سینیٹ ہے جس کے اراکین کی تعداد چاروں صوبوں پر مساوی تقسیم کے ذریعے ہے یعنی پنجاب اپنی 14 کروڑ آبادی کے ساتھ سینیٹ میں پچیس سیٹیں رکھتا ہے اور بلوچستان صرف پچاس لاکھ آبادی کے ساتھ بھی پچیس سینیٹ اراکین منتخب کرتا ہے۔ قارئین! رواں ہفتے بے شمار واقعات روپذیر ہوئے۔ مسلم لیگ ن آڈیو ویڈیو ٹیپس لیکر جمے ہوئے سمندر میں طوفان پیدا کرنا چاہتی ہے جبکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریکوڈک پر فیصلے نے ملک کو چھ ارب ڈالرز کا ٹیکہ لگایا اور آج ہم ایک شخص کی ذاتی انا کا شکار ہو کر عالمی عدالت میں ملزم بن کر کھڑے ہیں جبکہ کل عالمی عدالت کلبھوشن یادیوکے مسئلہ پر بھی محفوظ عدالتی فیصلہ سنائے گی اور سپریم کورٹ آف پاکستان میاں نوازشریف کے کیسز کی سماعت کرے۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل کی ایک خبر کے مطابق زلزلہ اور سیلاب زدگان کے فنڈ میں شہبازشریف کی خورد برد کی کہانی بھی منظرعام پر آ چکی ہے اور ملکی اور عالمی حالات اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ کب کہاں کچھ ہو جائے کسی کو کچھ خبر نہیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024