کم و بیش ایک سال قبل کس کو معلوم تھا کہ پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم آج اڈیالہ جیل میں ہوگا بات یہیں ختم نہیں ہوئی اس کی بہادر بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر بھی ان کے ساتھ جیل میں ہوں گے جب کہ دونوں صاحبزادے حسن وحسین اشتہاری قرار دئیے جا چکے ہوں گے ۔ باپ ،بیٹی اور داماد ایک ہی جیل کی مختلف بارکوں میں قید تنہائی برداشت کر رہے ہیں اگلے روز نواز شریف کی والدہ محترمہ ،میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے قیدی نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سے ملاقات کی یہ ملاقات انتہائی جذباتی ماحول میں ہوئی میاں نواز شریف نے اپنی بوڑھی ماں کو حوصلہ دیا اور کہا کہ ’’ میں پاکستان کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہوں ان شا ء اللہ میں اس جنگ میں سرخرو ہوں گا ‘‘۔ جیل میں میاں نواز شریف کو بی کلاس دے دی گئی ہے جب کہ مریم نواز جو مستقبل کی لیڈر ہیں نے بہتر کلاس لینے سے انکار کر دیا ہے ۔ مریم نواز جیل میں ایک نئی تاریخ لکھ رہی ہیں ان کے لئے سہالہ ریسٹ ہائوس کو سب جیل کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھالیکن انہوں نے اسی جیل میں رہنا پسند کیا جس میں ان کا بہادر باپ اور شوہر جیل کاٹ رہے ہیں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف دیگر ریفرنسز کی سماعت کے لئے احتساب عدالت اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا نگران وزیر قانون سید علی ظفر نے کہا ہے کہ نیب عدالت کے جیل منتقل کرنے کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ بات قابل ذکر ہے میاں نواز شریف نے جیل کے باہر سے روٹی منگوانے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا ،مریم نواز اس وقت جیل میں خواتین قیدیوں کے ساتھ رکھی گئی ہیں انہوں نے جیلر سے کہا ہے کہ’’ انہیں وہی کھانا دیا جائے جو عام قیدیوں کو دیا جاتا ہے‘‘ آج یہ حقیقت ہے کہ جب احتساب عدالت نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ان کی عدم موجودگی میں قید و جرمانہ کی سزا سنائی تو انہوں نے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے گرفتاری پیش کر دی ۔کیپٹن (ر)محمد صفدر نے مانسہرہ سے راولپنڈی آکر ’’سج دھج‘‘ سے گرفتاری دی جس پر ’’کپتان‘‘ کی رگ ظرافت پھڑکی اور کہا کہ ‘‘ کیپٹن ( ر) محمد صفدر نے اس طرح گرفتاری دی جیسے وہ کشمیر فتح کرنے آئے ہیں ‘‘۔ عمران خان کے اس طنز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس روز کیپٹن (ر) محمد صفدر نے جلوس کی صورت میں گرفتاری دی پورا راولپنڈی گھروں سے باہر نکل آیا ۔ راولپنڈی کو جو مسلم لیگ(ن) کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے کیپٹن (ر) محمد صفدر کے ایک جلوس نے بیدار کر دیا۔ ممکن ہے احتساب عدالت میاں نواز شریف اور مریم نواز کی موجودگی میں فیصلہ سناتی تو اتنا بڑا’’ سیاسی شو‘‘ نہ لگتا جتنا میاں نواز شریف اور مریم نواز کی لندن واپسی کے موقع پر’’ سیاسی قوت‘‘ کا مظاہرہ کیا گیا ۔13جولائی 2018ء کو پاکستان بھر سے مسلم لیگی کارکنوں نے لاہور میں’’ سیاسی میلہ ‘‘ لگا کر یہ ثابت کر دکھایاہے کہ مسلم لیگ(ن) ایک زندہ جماعت ہے میاں نواز شریف نے پاکستان واپس آکر گرفتاری دینے کا جرات مندانہ فیصلہ کر کے جہاں مسلم لیگی کارکنوں کو متحرک کر دیا ہے وہاں انہوں نے ’’سیاسی و غیر سیاسی عناصر ‘‘کو یہ باور کرادیا ہے کہ اقتدار سے نکالے جانے کے باوجود انہیں لوگوں کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا وہ اب بھی لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں اب بھی نواز شریف ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور یہ ایک سیاسی حقیقت ہے عمران خان نواز شریف کا شاندار استقبال دیکھ کر اس حد تک پریشان ہو گئے ہیں جو منہ میں آرہا ہے کہہ رہے ہیں انہوں نے استقبال کرنے والے لوگوں کو’’گدھا تک کہا انہوں نے کہا کہ’’ نواز شریف کا اس طرح استقبال کیا جا رہا ہے جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں ‘‘۔ عمران جنہوں نے کبھی جیل نہیں دیکھی انہیں کیا معلوم سیاست کی منزلیں طے کرنے والوں کے لئے ’’جیل یاترا‘‘ ایک اعزاز کی حیثیت رکھتی ہے میاں نواز شریف اور مریم نواز نے برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے کی بجائے پاکستان واپس آنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کرکے اپنی پارٹی کو 25جولائی 2018ء کا انتخابی معرکہ سر کرا دیا ہے اب پاکستان کے عوام یہ سمجھ گئے ہیں کہ نواز شریف کی لڑائی کس سے ہے؟ باپ بیٹی کو13جولائی 2018ء کو لاہور سے گرفتار کر کے رات 12بجے سکیورٹی کی 35،40گاڑیوں کے قافلے میں اڈیالہ جیل پہنچا یا گیا ۔ نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے ’’ پرویزی مارشل لاء ‘‘ میں بھی کچھ دن اڈیالہ جیل میں گذار چکے ہیں اسی طرح میاں شہباز شریف ، عباس شریف اور حمزہ شہباز بھی اسی جیل میں رہ چکے ہیں ۔ البتہ مریم نواز کے لئے جیل ایک نیا تجربہ ہے ان کے لئے سہالہ ریسٹ ہائوس کو سب جیل قرار دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ اڈیالہ جیل ہی رہنے کو ترجیح دی ۔ جیل سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مریم نواز ایک بہادر خاتون کی طرح جیل کاٹ رہی ہیں ۔ عام انتخابات سے چند روز قبل احتساب عدالت کی جانب سے سزا سنانے سے مسلم لیگی کارکنوںمیں بے چینی کی جو لہر دوڑی، وہ تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔میاں نواز شریف کی لاہور آمد پر جہاں پورے ملک سے مسلم لیگی کارکن قافلوں کی صورت میں تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے لاہور پہنچے۔ وہاں راولپنڈی سے سینیٹر چوہدری تنویرخان، حنیف عباسی،سردار نسیم ،ملک ابرار احمد، بیرسٹر دانیال چوہدری اور شکیل اعوان کی قیادت میں ڈیڑھ کلومیٹرطویل جلوس لاہور پہنچا ، اسی طرح امیر مقام بھی خیبر پختونخوا سے ایک بہت بڑا جلوس لے کر نواز شریف کا استقبال کرنے کے لئے لاہور پہنچے میاں نواز شریف نے لندن میں پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ’’ انھیں پاکستان نہ آنے کے لئے پیغامات موصول ہورہے ہیں لیکن مجھے لندن میں سیاسی پناہ کی باتیں کرنے والے سن لیں کہ میں پاکستان آ رہا ہوں، قوم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ انھوں نے اپنے خلاف فیصلے کے بارے میں کہا کہ ’’ ہمیں سزا دینے کا فیصلہ کہیں اور ہوا ہے، اسے پانچ بار تبدیل کر کے سنایا گیا‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مریم کا کیا قصور ہے؟ قوم کی بیٹیوں کی توہین کی گئی ہے، جی حضوری کر کے طویل اقتدار حاصل کر سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا‘‘ ۔نواز شریف نے اپنی پاکستان واپسی سے ایک روز قبل پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ مجھے جیل بھیجیں یا پھانسی دیں، اب اقدامات نہیں رکیں گے‘‘۔ بہرحال ان کی پاکستان روانگی سے قبل کلثوم نواز کی عیادت کرتے ہوئے، جو تصویر شائع ہوئی ہے، وہ ہر درد دل رکھنے والے کسی بھی فرد کو رُلا دیتی ہے۔ بے بسی کی تصویر دیکھی نہیں جا تی ۔ میاں نواز شریف نے کہا ہے’’ میری خواہش ہے کہ کلثوم نواز کو آنکھیں کھولتا دیکھ سکوں، اللہ کے سپرد کر کے وطن واپس جا رہا ہوں۔ عوام نے انصاف کا حقیقی چہرہ دیکھ لیا ہے، میری بیٹی سزا سن کر آ رہی ہے‘‘۔ میاں نواز شریف کے وطن واپسی پر ملک بھر میں مسلم لیگ ن نے اپنی سیاسی قوت کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس سے ایک بار پھر مسلم لیگ ن میں جان پیدا ہو گئی ہے عام انتخابات سے چند روز قبل مسلم لیگی قیادت نے طاقت کا مظاہرہ کیا ہے جومسلم لیگ ن کو انتخابی میدان مارنے میں بڑی آسانی پیدا کرے گا ۔ اب تک کے موصول ہونے والی معتبر انتخابی جائزوں کے مطابق مسلم لیگ ن کو تاحال تمام جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔ اب بھی ملکی سطح پر تحریک انصاف مسلم لیگ سے 3 فیصد پیچھے ہے جبکہ پنجاب کی حد تک مسلم لیگ ن کو50 فیصد اور تحریک انصاف کو 29 فیصد حمایت حاصل ہے۔ میاں نواز شریف کو جیل میں ڈالنے سے مسلم لیگ ن کو بے پناہ سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ ’’قیدی نواز شریف‘‘ تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں پر بھاری ثابت ہوگا انھوں نے برملا یہ بات کہی ہے کہ’’ میں پاکستان واپس جا رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ جیل کی سلاخیں میری منتظر ہیں‘‘۔ میاں نواز شریف’’ فائٹر ‘‘کی طرح چو مکھی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ نواز شریف کے مخالفین نے انہیں ’’انڈر ایسٹیمیٹ ‘‘ کیا ہے ان کا خیال تھا نواز شریف لندن سے واپس نہیں آئیں گے اور اس طرح وہ یہ کہہ سکیں گے نواز شریف نے جلاوطنی اختیار کر لی ہے مجھے یاد ہے جس طرح انہوں نے 12اکتوبر1999ء کی رات سنگینوں کی نوک پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا اسی طرح اب بھی وہ نیلسن مینڈیلا کی تاریخ دہرانے پاکستان واپس آگئے ہیں انھوں نے ایک ’ جرأت مند ’قائد‘‘ کی حیثیت کو منوا لیا ہے ان کے تمام حربوں کو سیاسی دانش سے ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے عام انتخابات کے بروقت انعقاد پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں اب یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ اگر جلسے جلوسوں میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہے تو انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن نہیں ہو گا مسلم لیگ ن کی مقبولیت بھی انتخابات کے التوا کا باعث بن سکتی ہے سینیٹ کا 279 واں اجلاس جاری ہے جسے تحریک انصاف نے ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اسے جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ تاہم چیئرمین سینیٹ نے انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے کے لئے تمام جماعتوں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ عام انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں، سیاسی گہما گہمی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، میاں نواز شریف اور مریم نواز کی جیل یاترا کے عام انتخابات پر اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ میاں نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدرکے نام ای سی ایل پر ڈالنے کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی نے سفارشات تیار کر کے وفاقی کابینہ کو بھجوا دی ہیں وفاقی کابینہ بھی ایک دو روز میں ان کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کے بارے میں فیصلہ کر دے گی نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے وکلاء نے احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے ممکن ہے پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہو جائے گی بہر حال نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدرایک تاریخ رقم کر رہے ہیں مریم نواز کو پاکستان کی دوسری بے نظیر بھٹو بنایا جارہا ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024