شہید سراج رئیسانی :سرفروش سپاہی
پاکستان کا سرفروش مجاہد اورسچا بیٹا اپنی دھرتی ماں سے بے پناہ محبت کی پاداش میں شہید کردیا گیا۔ شہید سراج رئیسانی وہ مرد مجاہد تھا جس نے بلوچستان میں بدترین حالات میں پاکستان کا جھنڈا سربلند رکھا اور بالآخر اسی سبز ہلالی پرچم کو اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا کہ شہید وطن کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ مستونگ میں آبائی علاقے کانک کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سراج رئیسانی شہید کو پاکستان کا سرفروش سپاہی اور جانباز مجاہد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایک محب وطن پاکستانی کھو دیا ہے جسے ہمیشہ پاکستان کے لیے خدمات کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ آرمی چیف نے سراج رئیسانی کے خاندان کی تین نسلوں کی قربانیوں کاذکر بھی کیا۔ پاکستان سے عشق تادم آخر شہیدسراج رئیسانی کی پہچان بنا رہا۔ سراج رئیسانی شہید پاکستان کا سچا اور سرفروش سپاہی تھا۔ یہی اس کا جرم تھا وہ بلوچستان میں جاری بھارتی سازشوں سے بخوبی آگاہ تھا اس لئے بھارت سے شدید نفرت کرتا تھا۔ جس کا برملا اظہار کرتا تھا وہ ایسا شوریدہ سر تھا کہ بھارتی ترنگے کا جوتا بنا کر پہنتا تھا شاید اسی لئے سارے کمرشل لبرلز نوحہ گروں کو سانپ سونگھ گیا:
شہید کی جو موت ہے
وہ قوم کی حیات ہے
شہید وطن سراج رئیسانی کی شہادت اس لئے بھی کوہِ گراں بن گئی ہے جس کے بوجھ تلے دم گھٹ رہا ہے کہ ساراوان ھاو¿س تو کوئٹہ میں اس کالم نگار کا دوسرا گھر ہے کہ نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کی محبتیں اور عنایات کا مقروض ہوں پنج وقتہ نماز کا اہتمام کرنے والے باعمل مسلمان’ سراپا عجز و نیاز کی مرقع تصویر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی سے دنیا جہان کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ کتابوں کے قصے شروع ہوجائیں تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ کراچی میں بھائی خان ممریز خان اور کوئٹہ میں نوابزادہ میر لشکری رئیسانی کی بے پناہ فراواں التفات اور محبتیں اس عاجز کو بے دم کردیتی ہیں۔ منفرد اسلوب کے تجزیہ نگار جناب امان اللہ شادیزئی بتا رہے تھے کہ شہید سراج رئیسانی بنکاک منتقل ہو چکے تھے کہ ان کی شادی تھائی لینڈ کے شاہی خاندان میں ہو ئی تھی لیکن مادر وطن کی ایک پکار پر واپس لوٹے تھے۔ وہ بتارہے تھے کہ شہید سراج کی شوریدہ سری کا ایک زمانہ گواہ ہے وہ بلوچ سرداروں سے بلند و بالا روایت شکنی کا اعلے مقام رکھتے تھے وہ غریبوں کےلئے “رابن ہڈ” جیسا کردار تھے غریب پرور اور فوری انصاف فراہم کرنے والا دیومالائی کردار’ پیچیدہ اور لاینحل مسائل کے لئے لوگ دور دور سے فریادیں لے کر ان کے پاس آتے اور انصاف پاتے تھے۔ ان کے صاحبزادے جمال رئیسانی نے اپنے والد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہادت نے ان کی شخصیت کو نظریئے میں بدل دیا ہے پاکستان سے محبت کا نظریہ’ سرفروشی کی لازوال داستان بنادیا ہے۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
یہ وہی میر سراج رئیسانی تھے جنہوں نے وطن کی محبت میں آزادی ریلی نکالی اور دو کلومیٹر طویل پاکستانی پرچم تیار کراکے بلوچستان کے گلی کوچوں میں آزادی مارچ کروایا جب بلوچستان میں سبز ہلالی پرچم لہرانا اور ترانا گانا ایسا سنگین جرم بنا دیا گیا تھا جس کی سزا موت سے کم نہ تھی وہ ایسا محب وطن تھا جو تقاریر کا اختتام پاکستان زندہ باد کے نعرے سے کرتا تھا۔ ویسے اس ملک میں محب وطن ہی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ نواب سراج رئیسانی وہ شیر تھا جو اکیلا پاکستان کا پرچم لئے سارے بلوچستان میں لہرانے نکل پڑا تھا۔
جب بڑے بڑے مردوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں۔ وہ سچا پاکستانی ‘ بہادر بلوچ سردار نواب اسلم رئیسانی اور عزیز دوست لشکری رئیسانی، بابو جان رئیسانی کا بہادر اور شجاع بھائی تھا۔ انتخابی مہم کے دوران شہید پاکستان کے نام پر ووٹ مانگ رہے تھے اپنے آخری پیغام میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ”میں واحد امیدوار ہوں جو اپنی گاڑیوں پر پاکستان کا جھنڈا لگاکر پاکستان کے نام پر ووٹ مانگتا ہوں کیونکہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ہماری پارٹیاں ہیں اس لئے میں پاکستان کے نام پر لوگوں سے ووٹ مانگتاہوں“ شہید سراج مسلسل دہراتے تھے ۔ مارنے سے ہم کبھی ختم نہیں ہوں گے لیکن ڈرنے سے ضرور ختم ہوں گے“ نوابزاد سراج رئیسانی ماہر زراعت و گل بانی تھا نیدرلینڈ سے فلوری کلچر میں پوسٹ گریجویٹ تھا۔ سراج رئیسانی کہتا تھا وطن پرستی کاپہلا درس مرحوم والد نواب غوث بخش رئیسانی نے دیاتھا شہید سراج رئیسانی کا بیٹا حقمل رئیسانی بھی مستونگ میں اسی طرح کے بم دھماکے میں شہید ہوا تھا۔ شہید سراج رئیسانی پاکستان سے اپنے عشق کا دعوی اور وعدہ نبھا گیا۔ وہ پاکستان دشمنوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتاتھا۔ دشمن‘ پاک فوج اور پاکستان کے لئے لڑنے والوں کو ہدف بنا رہا ہے موذی مودی کا مشیر اجیت کمار ڈو¿ل کہتا تھا ہم بلوچستان چھین لیں گے۔ شہیدسراج رئیسانی کہتے تھے دہشت گردی کے خلاف آخری دم تک لڑیں گے اور ملک دشمن قوتوں کو کسی بھی صورت ان کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بلوچستان کے عوام نے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور جو ہمارے دشمن ہیں ان کے عزائم کو ہم کسی بھی صورت یہاں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ملک کی خاطر سب کچھ قربان کریں گے کیونکہ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے اور اس کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ انہوں نے 2014 یوم آزادی پر پاکستان کا سب سے بڑا قومی پرچم بنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔ شہید رئیسانی پاکستان کا سچا عاشق زار تھا۔ 23 مارچ، کو اپنے پیغام میں کہا ” ہم اپنی پاک افواج پر ناز کرتے ہیں، ہمیں فخر ہے کہ اللہ نے ہمیں ایسے بہادر پاک فوج کے جوانوں سے نوازا ہے، ہم پاک فوج کے جوانوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ انشااللہ آپ کے شانہ بشانہ اس پاک وطن کے دفاع کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، پاکستان زندہ باد، بلوچستان پائندہ باد!“۔
”اگر میں مارا جاﺅں تو میرے لئے ایک آنسو بھی مت بہانا۔ اس کے بجائے پاکستان کی خوشحالی کے لئے کام جاری رکھنا۔ میں یہ جان لوں گا کہ ہم فاتح ہیں۔ میں سراج خان رئیسانی بلوچ ہوں اور میں ایک پاکستانی کے طورپر ہی جان دوں گا“۔ بھارتی ترنگے کو جوتے کی نوک پر رکھنے والا بانکا، سجیلا ارض پاک میں پورے اعزاز سے ا±ترگیا۔ بڑے بیٹے کو پاکستان پر وارنے والے کا ٹویٹر پر پیغام سچ ثابت ہوا۔ سراج رئیسانی ساراوان کے نوابزادے کے طورپر نہیں پاکستان کے پرچم کو تھامے، مادروطن پر نثار ہونے والا وردی کے بغیر سرفروش سپاہی تھا۔ اس کے لاشے کو’ وردی کوکفن سمجھنے والے سپوتوں نے جس شان سے اٹھایا، وہ شہید کے مقام اور مرتبے کے شایان شان تھا۔ چیف آف ساراوان‘ رئیسانی قبیلے کے سردار نواب اسلم رئیسانی اور علم وکتاب دوست سابق سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی خوش نصیب ہیں ا±ن کا یہ بھائی پاکستان کی محبت میں مارا گیا۔ وہ شہادت کے آسمان پر دمکتا ستارہ کہ جس پر ہرمحب وطن، پاکستانی کو ناز ہے، سلام ہے۔ یوم پاکستان پر اپنے والد کی شبیہہ، سراج رئیسانی نے اپنے ایک ٹویٹ میں والد کی تصویر کے ساتھ جو پیغام دیاتھا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور اس کی شخصیت کا تعارف ہے۔ شہید نے لکھا ” 20 کروڑ سے زائد پاکستانی مادروطن کے تحفظ، اس کی آزادی، سالمیت اور خودمختاری دشمنوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دیں گے۔ میرے مرحوم والد نواب غوث بخش رئیسانی فوج میں کپتان تھے۔ ا±نہوں نے مجھے یہ سبق ازبر کرایا ہے کہ ضرورت پڑنے پر مادروطن پاکستان کے دفاع کے لئے دشمن کے خلاف ہمیشہ ہراول دستے اور اول صف میں رہنے کو تیار رہو۔ میرے محب وطن والد کا خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے“۔( جاری ہے )
شہید سراج بلوچ باغیوں کے مقابل سینہ تانے کھڑا تھا وہ فراری کیمپوں پر قہر بن کر نازل ہوتا تھا وہ ہر محاذ پر پاکستان دشمنوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنج کر رہا تھا اداروں کی ترجیحات ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہوں گی لیکن شہید سراج کا مرکز و محور اوّل و آخر صرف اور صرف پاکستان رہا وہ پاکستان کے لئے جیا اور اسی کےلئے جام شہادت نوش کیا۔ حب الوطنی کی میراث کے امین نوابزادہ سراج رئیسانی شہید کے دو سنگین ”جرائم“ تھے۔ بھارتی ترنگے کے جوتے بنوانا اور دو کلومیٹر طویل سبز ہلالی پرچم لہرانا۔ تب ہی تو ایک قلم کار نے یہ لکھ دیا کہ ”اسی لئے کمرشل لبرلز اچانک غش کھا کر خاموش ہوگئے ہیں۔“ ایک اور شہری نے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا کہ ’پاکستان سے محبت پر مارا گیا“۔ یہ شہید کا رتبہ ہے۔ یہ اس کا اعزاز ہے اور یہ وہ خراج ہے جو قوم بلاتفریق اسے پیش کررہی ہے۔ یہ وہ گواہی ہے جو ہر محبت وطن پاکستانی دے رہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 35سے وہ پچیس جولائی کو متوقع عام انتخابات میں امیدوار تھے۔ براہوی زبان میں یہ ہی کہہ پائے تھے کہ ’بلوچستان کے بہادر لوگو‘ اور خودک±شں دھماکے میں شہادت کا مرتبہ پاگئے۔ ان کے ہمراہ 150 سے زائد اور نوجوان بھی جام شہادت نوش کرگئے جن کی اکثریت کا تعلق پرکانی قبیلے سے بتایاجاتا ہے۔ سراج رئیسانی کے قبیلے کو بلوچستان کے قبائلی اور سیاسی نظام میں اہم مقام حاصل ہے لیکن نوجوان، نڈر اور بے خوف سراج کی سوچ، خیالات اور نکتہ نظر اپنے بڑے بھائیوں سے شاید مختلف تھا کہ اس نے بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد قیام امن اور صوبے کی ترقی وخوشحالی کے ایجنڈے میں سکیورٹی فورسز کا بے جگری سے ساتھ دیا۔ ا±ن کو نشانہ اس لئے بھی بنایا گیا کہ وہ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کو تیز کررہے تھے۔ دوہزار گیارہ میں یوم آزادی پر پاکستان کی خوشیاں منانے کی تقریب انہوں نے منعقد کی۔ دشمنوں کو سخت ناگوار گزرا اور نوابزادہ سراج رئیسانی کو دوران تقریب بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ بچ گئے لیکن ان کے بڑے بیٹے میر حقمل رئیسانی سمیت متعدد افراد شہید ہوگئے تھے۔ اعتراف جرم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے کیا جس سے اس معصوم کی شہادت پر مہرتصدیق ثبت ہوئی۔ وطن سے محبت کرنے والا، جان کے نذرانے سے اپنا عہد ‘وفا کرگیا۔ ورنہ ایسے بھی ہیں جو ہندوستان کی جوتیوں میں گنجائش نکالنے کو بے چین رہے۔ وزیراعلی بلوچستان علاﺅ الدین مری نے سراج رئیسانی کی شہادت پر گواہی دی ہے کہ ’دہشت گردی کی جنگ میں اپنے جوان سال بیٹے کی قربانی دینے کے باوجود انھوں نے کبھی دہشت گردوں سے ہار نہیں مانی۔ دہشت گردی کے خلاف اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے اور بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کی بھرپور مخالفت کرتے رہے‘۔ وطن کے بیٹے ایسے ہوتے ہیں۔ ضلع مستونگ میں خود کش حملہ ہلاکتوں کے حوالے سے بلوچستان میں سب سے بڑا حملہ قرار پایا ہے۔ جنوری 2013 میں علَمدار روڈ پر دو خود کش حملوں کے نتیجے میں 106 افراد ہلاک اور 169 زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعہ میں دو سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے اور شہداءکی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتاگیا۔ ہدف یہ تھا کہ شہید سراج کسی صورت بچنے نہ پائیں
بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق خود کش حملہ میں آٹھ سے دس کلوگرام بال بیئرنگ استعمال کیے گئے جس کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ مادر وطن پر قربان ہونے والوں میں ایسے خاندان بھی شامل ہیں جن کے تین سے چار افراد اس حملے میں شہید ہوئے۔ عبدالخالق کے تین بیٹے پاکستان پر وارے گئے۔جمعے کی نماز ادا کرکے جیسے ہی وہ گھر پہنچاتو دھماکے کی آواز سنی۔ دو بچوں کی لاشیں ا±سے جلسہ گاہ کے اندر پڑی ملیں۔ تیسرے بچے کی لاش نہ ملی۔ جو بعد ازاں اس کابھائی سول ہسپتال سے گھر لایا۔ اسی طرح عبدالقادر کے گھر کے دو افراد مارے گئے۔ صرف اِن کے گا¶ں کے دس افراد شہید ہوئے۔ اس دہشت گردی پر امریکہ کو بہت دکھ ہوا ہے۔ محکمہ خارجہ نے بیان میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انتخابی امیدواروں پرحملوں کی مذمت کرتے ہوئے ان حملوں کو پاکستانی عوام کو ان کے جمہوری حقوق سے دور رکھنے کی بزدلانہ کوشش قراردیا۔ میری یادداشت پر فوراً عالمی میڈیا میں آنے والی خبریں اور روسی صدر ویلادمیرپوٹن کا بیان چھا گیا جس میں انہوں نے بڑے ممالک پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام لگایاتھا۔ داعش کو اسلحے، سرمائے کی فراہمی اور پھر سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا بیان بھی یاد آیا۔ پھر اور بھی بہت کچھ یاد آگیا۔ پھرکلیم عاجز کا سخن یاد آگیا،
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
وطن کے بیٹوں کے لئے ان کی وفا وسرفروشی پر زندان نامہ میں فیض احمد فیض کے الفاظ میں خراج عقیدت پیش ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گربازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
سچا پاکستانی بہادر بلوچ سردار بھارتی ترنگے کا جوتا بنانے والے کٹر پاکستانی نواب سراج رئیسانی شہید کو سلام’ صد سلام، جو سب سے پہلے مسلمان تھا۔.... پھر پاکستانی تھا۔۔۔ پھر بلوچ تھا۔۔۔۔۔ یہ شہید رئیسانی تھا۔۔۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ سراج رئیسانی کی شہادت پر ہندوستانی کیوں جشن منا رہے ہیں۔