پیر ‘ 2ذیقعد 1439 ھ ‘ 16 جولائی 2018ء
مخلوط حکومت بنی تو آصف زرداری وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے: بلاول زرداری
اب اگر مخلوط حکومت نہ بنی تو شاید بلاول زرداری بھول رہے ہیں کہ تب بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار آصف زرداری ہی ہوں گے۔ کیونکہ انہوں نے ابھی پیپلز پارٹی کو اور نہ ہی بلاول کو اتنی آزادی دی ہے کہ وہ ان کی مرضی سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کر سکے۔ پھر یہ خیال کہاں سے بلاول کو آ گیا کہ مخلوط حکومت بنے گی۔ اگر ایسا ہوا بھی تو کیا باقی جماعتوں کے قائدین وزیر اعظم بننے کی کوشش نہیں کریں گے۔ مخلوط حکومت میں تو ہر جماعت اپنا اپنا وزیراعظم لانے کی کوشش کر لی ہے۔ اول نمبراس جماعت کا ہو گا جس کے امیدوار زیادہ ہیں۔ پیپلز پارٹی والے اندازہ لگا لیں اس حساب سے ان کا نمبر کونسا ہو گا۔ ویسے بھی اس وقت تحریک انصاف والے اپنی اڑان میں ہیں۔ ان کی نظریں عمران خان کے سوا کسی کو وزیر اعظم بنتا دیکھ ہی نہیں سکتیں۔ مسلم لیگ (ن) والے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس دوڑ میں پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر ہو بھی تو بہت پیچھے ہو گی۔ مگر ہر جماعت کو حق ہے کہ وہ اپنے قائد کو وزیر اعظم بنانے کی بات کرے۔ پیپلز پارٹی میں بلاول جی نے چلیں اس بہانے یہ تو تسلیم کر لیا کہ یہ پیپلز پارٹی کے قائد اس وقت وہ نہیں آصف زرداری ہیں۔ وہ صرف شو بوائے ہیں۔ ہاں اگر عمران خان نے میاں شہباز شریف کو بھی اندر کروا دیا تو صورتحال بدل سکتی ہے۔ مگر پھر بھی باری خان صاحب کی ہی ہو گی۔ زرداری صاحب کی نہیں کیونکہ شہباز شریف کے بعد خان صاحب آصف زرداری کو بھی اندر بھیجنے کی پلاننگ کر چکے ہیں....
٭........٭........٭
اعتزاز کی آنکھوں میں ککرے پڑ گئے ہیں: خواجہ سعد رفیق
پیپلز پارٹی کے نستعلیق قسم کے رہنما اعتزاز احسن ویسے تو ہر مشکل گھڑی میں خود کو محفوظ رکھنے کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں مگر میاں نواز شریف کی آمد اور ان کے استقبال کے حوالے سے نجانے کیوں وہ حال دل یا سیاسی بیان جاری کرتے ہوئے غیر محتاط ہو گئے۔ بیان جاری کیا تو وہ بھی ایساکہ مسلم لیگ (ن) والوں نے جزبز ہو کر جوابی بیان اسی لب و لہجے میں تو دینا ہی تھا۔ خواجہ سعد رفیق جہاندیدہ سیاستدان ہیں یہ الگ بات ہے کہ وزارتیں اورمشاورتیں ملنے کے بعد سب ہی خود کو وی آئی پی سمجھنے لگتے ہیں۔ جس کا نتیجہ الیکشن مہم میں سامنے آ رہا ہے۔ ابھی تک ایسے رہنما الیکشن مہم میں حلقے کا دورہ بھی نہیں کر پا رہے۔ یہ تو برا ہو دہشت گردی کی وارداتوں کا جس کی وجہ سے الیکشن مہم ٹھنڈی پڑنے سے ایسے امیدواروں کی جان میں جان آ گئی ہے اور وہ اپنی خفت دہشت گردی کی وجہ کہہ کر مٹا رہے ہیں۔ بات ہو رہی تھی اعتزاز احسن کی ان کی طرف سے استقبالیہ جلوس پر نشترزنی کے جواب میں خواجہ جی خالصتاً لاہوری انداز میں فرما رہے ہیں کہ اعتزاز کی آنکھوں میں ککرے پڑ گئے ہیں۔ جلن کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیںآ رہا۔ چلیں یہ بات درست مان لیتے ہیں کہ اعتزاز صاحب سیاسی مخالفت کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں۔ مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ضیا الحق دور کی طرح جب پیپلز پارٹی کے رہنماخود ہی اپنی نظربندی کے لئے منت سماجت کرتے تھے تاکہ جلسے جلوس میں جا کر پکڑے جانے سے بچ سکیں۔ بہت سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں نے بھی ازخود گزشتہ روز اپنی نظربندی کو ترجیح دی۔ کہاں گئے وہ جو فخر لاہور شیر لاہور، فرزند لاہور کے دعوے کرنے والے ہیں اگر وہ نظربندی توڑنے کی کوشش میں گرفتاری بھی دے دیتے تو لوگ انکے دعوﺅں پر یقین کرتے انہوں نے تو معمولی سا ہلہ گلہ بھی نہیں کیا۔ ....
٭........٭........٭
عمران خان کا انتخابی مہم جاری رکھنے کا اعلان
یہ بڑے جگرے کی بات ہے اس پے درپے دھماکوں اور ہلاکتوں کے بعد اگر عمران خان اپنی انتخابی مہم جاری رکھنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انہیں کوئی خوف نہیں ہے۔ اُڑتی اُڑتی علاقائی اخبارات کی خبر ہے کہ طالبان نے اپنے ہزاروںکارکنوں سے کہا کہ وہ عمران خان کی حمایت کریں اور انہیں ووٹ دیں۔ اس کے بعد ظاہر ہے خان صاحب اور نڈر ہو گئے ہوں گے۔نگراں صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کی طرف سے ہر سرکاری ادارے کی طرف سے انہیں جس طرح فری ہینڈ ملا ہے وہ بھی اپنی جگہ خاصہ تعجب خیز ہے۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں اس پر صدائے احتجاج بھی بلند کر چکی ہیں مگر ان کی سنے گا کون۔اس وقت تو لگتا ہے صرف عمران خاں کی سنی جا رہی ہے۔ دیکھنا ہے 25 جولائی کو عوام عمران خان کی آواز پر کان دھرتے ہیں یا نہیں۔ خان صاحب نے تو کہہ دیا ہے کہ وہ ڈر کر بنی گالہ میں بیٹھے رہنے والے نہیں۔ وہ جلسے کرتے رہیں گے انہیں کسی کا ڈر نہیں۔ انہیں اس بہادری کے مظاہرے کا جن عناصرنے کہا ہے کہیں یہ وہی تو نہیں جنہیں مخالفین غیبی یا خلائی مخلوق کہہ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں۔ اب خاں صاحب مستونگ میں شہدا کی تعزیت کے بعد پنجاب کارخ کر رہے ہیں جہاں لاہور اور فیصل آباد میں جلسوں سے وہ خطاب کریں گے۔ ایسا محفوظ ماحول ان کے مخالفین کی قسمت میں کہاں....
٭........٭........٭
انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں لیکن جو کچھ ہو رہا ہے نہیں ہونا چاہئے: چودھری شجاعت
بزرگ سیاسی رہنما کی اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جو کچھ اس وقت سیاست میں ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔ ایسا ماحول نہ صرف الیکشن کے لئے بلکہ ملک و قوم کے لئے بھی سودمند ثابت نہیں۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں جس طرح بھارت اور دہشت گرد تنظیمیں مل کر انتخابی عمل کو سبوتاژ کر رہی ہیں۔ اس سے ان دونوں خاص طور پر بلوچستان جیسے حساس صوبے میں معاملات افراتفری کی طرف جا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور یہ بات ہمارا ازلی دشمن بھارت کبھی برداشت نہیں کر پائے گا۔ اس لئے اس کی کوشش ہے کہ وہ اپنے زرخرید دہشت گردوں کے ساتھ مل کر اس صوبے میں بدامنی پھیلا ئے جس سے الیکشن مہم تو متاثر ہو گی ساتھ ہی سی پیک پر بھی برا اثر پڑے گا۔
اب چودھری شجاعت جیسے بزرگ رہنماﺅں کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھ کر اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں جو ان کے مربی سابق آمر صدر پرویز مشرف نے لگائی ہے۔ دہشت گردی کا تحفہ ان کی طرف سے انہی کے دور میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے پر ہمیں ملا ہے۔ موصوف خود تو یورپ میں بیٹھ کر آرام کر رہے ہیں۔ قوم کو ایک آزمائش میں مبتلا کر گئے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے بطور قائد ق لیگ چودھری جی کی تو خواہش بھی یہی ہو گی کے الیکشن پر مٹی پاﺅ ہم جیسوں کو ملا جلا کے قومی حکومت بناﺅ....
٭........٭........٭