شرح سود میں اضافہ ، مہنگائی بڑھنے کا خدشہ
سٹیٹ بنک پاکستان کے گورنر طارق باجوہ نے کراچی میں 2018کی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کرکے اسے 7.5فیصد کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر پر درآمدات کی وجہ سے دباﺅ ہے، جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی بڑھے گی۔ تاہم بجٹ خسارہ 6.8فیصد رہنے کا اندازہ ہے، انہوں نے مزید کہا اب تک ادھار لے کر معاملات چلاتے آرہے ہیں لیکن اسے جاری رکھنا مشکل ہے۔
شرح سود میں اضافے سے ان پنشنروں اور دیگر ان لوگوں کو تو فائدہ ہوگا جنہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی بچتیں قومی مراکز میں لگارکھی ہیں تاہم سٹیٹ بنک کے گورنر نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے Austerity Measures اختیار کرنے ہوں گے ، جو مشکل تو ضرور ہوں گے لیکن ان کے بغیر کوئی چار ا بھی نہیں۔ سب سے پہلے تو درآمدات پر کنٹرول کرنا ہوگا ، اور صرف باہر سے وہی چیزیں منگوائی جائیں ، جن کا تعلق ملک کی سلامتی اور صحت عامہ (ادویات وغیرہ ) سے ہے۔سامان تعیش میک اپ اور تزئین و آرائش ، مکانوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سامان وغیرہ کی درآمد پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لئے بیرون ملک روزگار کے سلسلے میں مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات میں اضافے کے لئے پر کشش ترغیبات دی جائیں ۔ زرعی اجناس کپاس ، شکر، گندم اور چاول کی برآمدات بڑھانے کے لئے نئی منڈیاں تلاش کی جائیں ۔ اس حوالے سے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ملک کے اندر بننے والی ہر وہ چیز جو برآمد کے قابل ہے اس کی کوالٹی کو اتنا بہتر بنایا جائے کہ اسے عالمی مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے ۔ ماضی میں بدقسمتی سے بعض بد دیانت برآمد کنندگان کی وجہ سے کئی منڈیاں ہمارے ہاتھ سے نکل گئیں ۔ اگر ہم مشکل اقدامات یعنی زندگی کے ہر شعبے میں سادگی اور کفایت شعاری کو اپنانے پر آمادہ ہو جائیں تو درآمدات اور برآمدات کی خلیج کو آسانی سے کم اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہماری معیشت میں لچک نہیںکہ جو چھوٹے موٹے جھٹکے ، مثلاً عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں وغیرہ میں اضافہ کو برداشت کرسکے۔ تیل کی قیمتیں بڑھادینا یا شرح سود میں اضافہ کر دینا کوئی کمال یا حل نہیں۔ دراصل ملک و قوم کو ایسے ماہرین مالیات کی ضرورت ہے جوپوشیدہ پیداواری ذرائع کو دریافت کر سکیں۔