امریکا نے حالیہ اقدام کے تحت ایک حکم نامے کے ذریعے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس موقعے پر اہل کشمیر اور پاکستانی عوام امریکی انتظامیہ کی اس غیر منصفانہ پالیسی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
امریکا کے اس حالیہ اقدام کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری دوچند ہو گئی ہے۔ ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ اس اقدام پر وزارتِ خارجہ کا رِدّعمل کمزور اور روایتی انداز سے سامنے آیا ہے۔ صدر آزاد کشمیر جناب مسعود خان اور چودھری نثار علی خاں صاحب نے کھل کر اور دلیل کے ساتھ بات کی ہے، لیکن جناب وزیراعظم، مشیر خارجہ اور فوج کا رِدّعمل یہ سطور لکھنے تک سامنے نہیں آیا۔ سب سے زیادہ پریشان کن خاموشی پاکستان کی کشمیر کمیٹی کی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ جسے اپنے فرض کی ادایگی کا کوئی احساس ہی نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا مقصد، پاکستان اور علاقے کے مسلمانوں کیلئے امن اور حقیقی مفادات کا حصول ہونا چاہیے۔ اس سلسلے کے بنیادی حقائق یہ ہیں:
-1مسئلہ کشمیر، ریاست جموں و کشمیر کے سوا کروڑ سے زائد مسلمانوں کے ایمان، عزت، آزادی اور سیاسی اور تہذیبی مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ تقسیم ہند (1947ء) کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یہ محض دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں ہے، اس لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں اسے اوّلیت دینا چاہیے۔
-2مسلمانانِ جموں و کشمیر نے اپنی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے، اور اس وقت اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے، جہاں بھارت اور دنیا کے دوسرے ممالک یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ، اس مسئلے کے فریق پاکستان، بھارت اور اقوام متحدہ بھی ہیں۔ پاکستان کا فرض ہے کہ ایک فریق کی حیثیت سے مسئلے کو لے کر اُٹھے اور ہرمیدان میں اس کے حل کے لیے سرگرم ہو۔ تحریکِ آزادی کی مدد کے ذریعے بھی، اور عالمی راے عامہ کو منظم اور مسخر کر کے بھی۔
-3 پاکستان کا اصل موقف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو پوری جرات، تسلسل اور دانش مندی سے پیش کرے۔ پاکستان یہ بات بھی واضح کردے کہ الحاق کے فیصلے کے بعد، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر میں تعلقات کی نوعیت، نظم و نسق اور انتظام و انصرام تمام اُمور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق طے ہوںگے۔
-4 پاکستان کا فرض ہے کہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی بھرپور مدد کرے اور اس کے اعلان میں شرمندگی نہ محسوس کرے۔ پاکستان نے کشمیر کی خاطر گذشتہ 70برسوں میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی ریاست اور پاکستان کے عوام کا فرض ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی مدد کریں۔
-5 اسی طرح اس جدوجہد میں آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام پر بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی طرح آزاد کشمیر کی حکومت بھی اپنے اصلی مشن کو بھول چکی ہے۔ وہ محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، اور مقبوضہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی اس کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی لیے اسے بیس کیمپ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ گروہی سیاست سے بالاتر ہوکر آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام، تحریک میں بھرپور حصہ لیں اور اپنی ترجیحات کو یکسر بدل کرتحریکِ آزادی کو اس کے منطقی اور فطری نتیجے تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔
-6 حکومت ِ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ مقصد محض سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتا، مگر اس کے باوجود سیاسی اور سفارتی مہم بہت اہم ہے اور اب تک اس کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاسکے ہیں۔ محض چند وفود باہر بھیجنے سے بات نہیں بنے گی، اس کے لیے بڑے ہمہ گیر، منظم اور موثر کام کی ضرورت ہے، جس کے تحت پوری دنیا میں ہرعلاقے کے حالات کے مطابق، تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے تعارف اور اس کی تائید کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری وزارتِ خارجہ بالعموم اس مقصد میں ناکام رہی ہے۔
-7 پوری پاکستانی قوم کو حالات سے آگاہ رکھنا اور قومی سلامتی کے لیے جذبہ جہاد سے سرشار کرنا بھی اس پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ جب تک پوری قوم کو اس تحریک کے لیے متحرک نہیں کیا جائے گا، کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہراسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں، ہرشہر، قصبے اور دیہات میں، ہرمسجد اور مدرسے میں، ہرکارخانے اور بازار میں، جہادِ کشمیر سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے ۔
-8 حکومت پاکستان کو اپنا بجٹ بھی ان ترجیحات کی روشنی میں ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا۔ جہادِکشمیر کی ضروریات کو اوّلیت دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوکلیر پاور کی مناسب ترقی، فوج کو چوکس رکھنا اور قوم کے نوجوانوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔
-9 بھارت پر موثر دباﺅ ڈالنے کے لیے چار ہی اہم طریقے ہیں اور ان چاروں کو موثرانداز میں اور مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال ہونا چاہیے:
l تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی بھرپور اور موثر مدد، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں قابض قوت پر اتنا دباﺅ پڑے اور اسے قبضے کی اتنی گراں قیمت ادا کرنی پڑے کہ وہ پُرامن حل کے لیے تیار ہوجائے۔
l عالمی راے عامہ کو منظم کرنا، اور اس کا دباﺅ اتنا بڑھانا کہ بھارت، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے کے لیے مجبور ہو۔ اگر فرانس کو الجزائر چھوڑنا پڑا، اگر اقوامِ متحدہ کو نمیبیا میں استصواب راے کرانا پڑا، اور اگر جنوبی افریقہ تین سو سالہ نسلی امتیاز کے نظام کو ختم کرنے پر مجبور ہوا، اگر اسکاٹ لینڈ میں پانچ سو سالہ رفاقت کے باوجود استصواب راے ہوسکتا ہے اور اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکلتے ہوئے استصواب کا راستہ اختیار کرسکتا ہے، اگر جنوبی سوڈان الگ ہوسکتا ہے اور اگر مشرقی تیمور کی ریاست انڈونیشیا سے کٹ کر استصواب کے سہارے قائم ہوسکتی ہے، تو بھارت کو بھی کشمیر میں استصواب پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور بہت جلد کیا جاسکتا ہے۔
l پاکستان بھارت اور اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی عالمی مہم کا آغاز اس سے تجارتی تعلقات منقطع کرکے کرے۔ تمام مسلمان ممالک کو اس کی ترغیب دی جائے کہ اوآئی سی کی اپریل 1993ءکی قرارداد کے مطابق بھارت کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس وقت صرف مشرق وسطیٰ میں بھارت کی کل برآمدات کا تقریباً 50 فی صد جارہا ہے۔ اگر ایک موثر عوامی اور سرکاری تحریک چلائی جائے تو یہ معاشی دباﺅ بھی بھارت کو مجبور کرے گا کہ کشمیر میں استصواب کرائے۔ پھر عالمی پلیٹ فارم پر بھی معاشی پابندیوں کا مطالبہ کیا جائے۔ سلامتی کونسل میں، جنرل اسمبلی میں، دنیا کی مختلف پارلیمانوں میں یہ قراردادیں منظور کرائی جائیں۔ عوامی بائیکاٹ کی مہم کے ساتھ ساتھ سرکاری پابندیوں کی تحریک بھی چلائی جائے۔ اگر اس واضح ہدف کے لیے کام کیا جائے، تو جلد فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔
l قوم کو جہاد کے لیے تیار کرنا ، فوج کا چوکس رہنا اور ایٹمی ڈیٹرنس کا صحیح درجے میں موجود ہونا، ایک طرف یہ چیز بیرونی جارحیت کے لیے موثر رکاوٹ ثابت ہوگی اور دوسری طرف ہم کو وہ استطاعت حاصل رہے گی کہ اگر دشمن کوئی دست درازی کرتا ہے تو اس کا موثر جواب دیا جاسکے۔ ایٹمی قوت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بھرپور جنگ سے اجتناب ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس دفاعی اسٹرے ٹیجی میں نیوکلیر پاور کا موثر کردار ہے۔
-10 اس عظیم جدوجہد کو اپنی اصل بنیادوں پر قائم رکھنے اور کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لیے جہاں یہ امر ضروری ہے کہ بھارت اور اس کے ہم نواﺅں کی سازشوں سے نہ صرف باخبر رہا جائے، بلکہ پورگے اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ ان کا بھرپور مقابلہ بھی کیا جائے ۔اتفاق و اتحاد، تحمل و دُور اندیشی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی تائید آزادی کے لیے کوشاں تحریکوں کو انشاءاللہ ثمرآور کرے گی۔ ضرورت ہے کہ جدوجہد کو پوری قوت، بہترین حکمت عملی اور مکمل یکجہتی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ انشاءاللہ کامیابی اہلِ کشمیر کے قدم چومے گی۔
-11 مندرجہ بالا خطوط پر مرتب کردہ کشمیر پالیسی کی کامیابی کے لیے ضروری ہو گا کہ اس کے نفاذ کے لیے بھی ایک موثر مشینری وجود میں لائی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ پالیسی اور اس کی تنفیذی مشینری، قومی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مناسب ابتدائی اقدامات کرنے چاہئیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا کردار بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کام کے لیے ایک قومی تحریک کی ضرورت ہے۔
جس طرح کشمیر کے نوجوانوں نے چند برسوں میں وہاں کی فضا تبدیل کر دی ہے، اسی طرح اگر پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام اپنے فرض کی ادایگی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تو حالات بہت کم وقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف تحریکِ آزادیِ کشمیر اور بالآخر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی شکل میں ہی نہیں ہوگا، بلکہ قوم کو نئی زندگی اور نیا جذبہ ملے گا، اور اس نئی زندگی اور نئے جذبے سے پاکستان کو ایک حقیقی اور مضبوط اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ یہی تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد تھا اور یہی تحریکِ کشمیر کی بھی قوتِ محرکہ ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024