نواز مودی ملاقات سے سے کشمیریوں میں مایوسی: مجاہد اول کی رحلت پر وفاقی حکومت کی سردمہری
’’کس کا یقین کیجئے کس کا نہ کیجئے، لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ‘‘ کے مصداق روس کے شہر اوفا میں برکس کے سربراہ اجلاس کے اگلے روز خود بھارت کی خواہش اور بعض ممالک کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے درمیان ملاقات بھارت کی ہٹ دھرمی ، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے منفی رویے، بنگلہ دیش میں جا کر سقوط مشرقی پاکستان کی ذمہ داری قبول کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں تعطل کے پس منظر میں جہاں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے وہاں اس ملاقات کے بعد جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر اور بلوچستان اور کراچی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی مداخلت کا ذکر نہ ہونے پر آرپار کی کشمیری قیادت نے بجا طور پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، اگرچہ حکومت پاکستان کے مشیر امور خارجہ وقومی سلامتی سرتاج عزیز نے روس سے واپسی پر اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ سے پیدا ہونے والی مایوسی کو زائل کرنے کے لئے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے مودی کو بلوچستان میں مداخلت سے آگاہ کیا اور بھارتی قیادت پر واضح کردیا کہ کشمیر کے بغیر مذاکرات نہیں ہوں گے، مشیر امور خارجہ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان حالیہ ملاقات مذاکرات کا باضابطہ آغاز نہیں یہ ملاقات بعض ممالک کی مداخلت کے باعث ہوئی ہے، ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں سفارتی اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، دوسری طرف آر پار کی کشمیری قیادت کا کہنا ہے کہ دونوں وزراء اعظم کی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا مشترکہ اعلامیہ صرف بھارتی موقف پر مشتمل ہے اس میں نہ تو پاکستان کا موقف شامل ہے نہ ہی مسئلہ کشمیر اور بلوچستان کراچی میں ’’را‘‘ کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے، مقبوضہ کشمیر کے قائدین غلام محمد صفی، میر طاہر مسعود، محمود اختر ساغر، رفیق ڈار اور آزاد کشمیر کے وزیر خزانہ چودھری لطیف اکبر، چیف جسٹس (ر) عبدالمجید ملک، سردار خالد ابراہیم، عبدالرشید ترابی نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہ ہونے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا حریت رہنما غلام محمد صفی کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، شبیر احمدشاہ کے نائب محمود احمد ساغر اور محمد یاسین ملک کے ترجمان رفیق ڈار نے کہا کہ اس سے شہ پاکر بھارت کشمیریوں پر مظالم تیز کردے گا ، عبدالمجید ملک نے کہا کہ اوفا اعلامیہ سے پاکستان کی کمزور کشمیر پالیسی کا اظہار ہوتا ہے سردار خالد ابراہیم کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں صرف ایک ادارہ مسئلہ کشمیر پر قومی موقف پر قائم ہے ، چودھری لطیف اکبر نے کہا ہم مذاکرات کے مخالف نہیں لیکن مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو اولیت دی جائے، عبدالرشید ترابی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، حریت قیادت کی نظر بندیوں اور کالے قوانین کے باوجود پاکستانی پرچموں کی بہار ایسے حالات میں مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر ہی نہ ہونا انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن ہے ، حریت کانفرنس(میر واعظ) کے رہنما میر طاہر مسعود نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کر کے دوستی اور تجارت کی کوششیں ماضی کی طرح آئندہ بھی کامیاب اور نتیجہ خیز نہیں ہوں گی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز کشمیریوں کے نکتہ نظر سے روس میں پاک بھارت وزراء اعظم کے فوٹو سیشن اور مشترکہ اعلامیہ سے مایوس کن صورتحال سامنے آئی اسی روز تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما، پاکستان کے عاشق صادق، نظریہ الحاق پاکستان اور استحکام پاکستان کے پرجوش علمبردار مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اپنی قومی سیاسی اور حکومتی خدمات کے حوالے سے طویل کامیاب اننگز کھیل کر اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف رخصت ہوئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عسکری قیادت، خواص وعوام کے جم غفیر کی مرحوم کی نماز جنازہ میں شرکت ان کی مقبولیت، محبوبیت اور بارگاہ حق میں قبولیت کا مظہر تھی جبکہ ان کے آبائی گائوں غازی آباد میں آزاد کشمیر کے طول وعرض سے ہزاروں عوام کی اپنے محبوب اور ہر دلعزیز رہنما کے سفر آخرت میں شرکت کی وجہ سے وسیع گرائونڈ میں ’’جاکے تم است و مرد ماں بسیار‘‘ کے مصداق تنگ دامنی کے باعث چار مرتبہ نماز جنازہ ادا کرنا پڑی، دونوں عظیم اجتماعات میں مجاہد اول کی رحلت پر مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی سرد مہری اور وزیراعظم کی ملک میں عدم موجودگی پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی عدم شرکت کو کشمیری اور پاکستانی حلقوں میں بھی محسوس کیا گیا سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے پاک بھارت وزراء اعظم کے مشترکہ اعلامیہ کے ساتھ سینئر ترین اور بزرگ کشمیری رہنما کی وفات پر وفاقی حکومت کی سرد مہری کو شدید ہدف تنقید کا نشانہ بنایا ہے، سچی بات یہ ہے کہ سردار محمد عبدالقیوم خان کی نماز جنازہ میں چند حکومتی اور مسلم لیگی شخصیات کی شرکت مرحوم کے ساتھ ذاتی تعلقات کی آئینہ دار تھی آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے مرحوم کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی ان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان سے فون پر رابطہ کیا عام تعطیل اور تین روزہ سوگ کااعلان کیا، اسلام آباد میں نماز جنازہ میں شرکت کی اور اگلے روز غازی آباد جا کر مرحوم کے مزار کی تعمیر، پولیس گارڈ کی تعیناتی، انٹرنیشنل تعزیتی کانفرنس اور کشمیر کونسل اور اسمبلی کے مشترکہ اجلاس کے انعقاد کا اعلان کیا جبکہ قائم مقام صدر سردار غلام صادق خان نے غازی آباد میں نماز جنازہ میں شرکت کی اور حکومتی انتظامیہ نے بھرپور تعاون کیا، صدر یعقوب خان نے مکہ مکرمہ میں کشمیری کمیونٹی کے ساتھ غائبانہ نماز جنازہ ادا کی، چند ماہ قبل وزیراعظم نواز شریف نے دورہ مظفر آباد کے دوران سردار عتیق احمد خان سے کہا تھا کہ وہ سردار عبدالقیوم خان کی عیادت کے لئے مجاہد منزل جائیں گے لیکن عدیم الفرقی کے باعث ایسا نہ ہو سکا ۔ نجانے اب ان کی ملک میں عدم موجودگی میں مجاہد اول کی رحلت پر حکومتی بے حسی اورسردمہری کے المیہ کا کیسے ازالہ ہو سکے گا ، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور رئیس الاصرار چودھری غلام عباس نے تو مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کو پاکستان اور کشمیر میں ایک دوسرے کی نمائندہ قرار دیا تھا مسلم کانفرنس نے قیام پاکستان سے قبل سری نگر میں قرار داد الحاق پاکستان منظور کی تھی اور مجاہد اول نے 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ دے کر مایوس دلوں کو ولولہ تازہ سے ہمکنار کیا تھا کور کمانڈر کی طرف سے اسلام آباد میں مجاہد اول کی نماز جنازہ میں شرکت اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دیگر عسکری قیادت کی طرف سے آزاد خطہ میں پاکستان کی بلا تنخواہ فوج کے عظیم سپہ سالار مجاہد اول کی قبر پر پھولوں کی چادریں چڑھانے اور فوجی دستے کی طرف سے سلامی پیش کرنے کے اقدامات کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے، میاں نواز شریف نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے نیلابٹ میں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور چکوٹھی کے فوجی مورچے پر کھڑے ہو کر سری نگر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موٹروے بنانے کے اعلانات اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر مجاہد اول کی موجودگی میں ہی کئے تھے۔ سردار عتیق بیگم کلثوم نواز کو بھی نیلابٹ لے کر گئے تھے ایک دور میں کشمیر ہائوس اسلام آباد کا وزیراعظم بلاک اپوزیشن لیڈر نواز شریف کی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ قائداعظم کی کشمیر پالیسی کی منافی آج آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن سرگرم عمل ہے اور اب مسلم لیگ کے دور حکومت میں مجاہد اول کی رحلت پر حکومتی بے حسی اور سردمہری کا افسوس ناک سانحہ رونما ہوا ہے:۔
نہ سوال رحل نہ عرض غم نہ حکائتیں نہ شکائتیں
تیرے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے