ولیم شیکسیئر کا ایک قول ہے دنیا کے جرائم میں سے سب بڑا جرم اور برائیوں میں سے سب سے بڑی برائی غربت ہے یہ ہمارا فریضہ ہے ایک ایسا فریضہ جس کیلئے تمام دوسری ترجیحات قربان کر دی جائیں کہ کوئی غریب نہ ہو۔اس سے تین اہم چیزیں ثابت ہوتی ہے ایک یہ کہ غُربت اور اس کے پیدا کردہ مسائل اتنے سنگین ہیں کہ انسانی قوتِ برداشت سے باہر ہیں کہیں کہیں استثنائی صورت حال کو چھوڑ کر۔دوسری چیز یہ کہ ریاست کا اولین فرض ہے کہ دولت اور وسائل کی تقسیم منصفانہ بنائے تا کہ غربت و امارت کی دو انتہائوں کے درمیان کوئی پِس کر نہ رہ جائے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو معاشرہ ظالم اور مظلوم، زبردست اور زیر دست استحصال کرنے والوں اور استحصال زدگان کے درمیان تقسیم ہو کر رہ جائے گا۔ وہاں خاطر ہستی کا ازلی دستور و دستور عدل ناپید ہو کر رہ جائے گا، نتیجۃََ انسانیت کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔ معاشرہ کرپشن اور ظلم کی زندہ تصوریر بن کر رہ جائے اور ریاستی قوانین اور تمام آئینی ادارے ظلم و نا انصافی کا محور بن کر رہ جائیں گے۔ حالیہ بجٹ دستاویزات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر خزانہ بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں انہوں نے قومی اسمبلی میں بجٹ 2015-16 پر بحث سمیٹتے ہوئے اس آئیڈیا کو Float کیا ہے کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی کی طرح ملک میں چارٹر آف اکانومی منظور کیا جانا چاہیے۔ یعنی تمام شراکت دار مل کر عادلانہ معاشی نظام قائم کرنے کی ضرورت پر اتفاق رائے پیدا کریں اور اس مقصد کے حصول کیلئے باضابطہ کوششیں کی جائیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کا حشر دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ چارٹر آف اکانومی کوئی معجزہ دکھا سکے گا۔ نظام خواہ کوئی بھی جب تک اسے چلانے والے مخلص، بے لوث، با عزت، صادق و امین جنہیں اقتدار کی ہوس تباہ نہ کر سکے، جنہیں اقتدار کا لالچ خرید نہ سکے، جن کا کردار اتنا اجلا ہو جیسے دھند کے اوپر سورج کی شعائیں، اس بات کا احساس کہ مسیحا خود بیمار ہے، حکمران حلقوں میں پیدا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، ورنہ ظلم دیکھئے کہ اس سال 2014-15، 1.4 فیصد جی ڈی پی کا تعلیم اور 0.4 فیصد صحت پر خرچ کیا گیا ہے عوام کا بنیادی حق ہے کہ ہر ضلعی صدر مقام پر ایک جنرل ہسپتال جہاں صحت کی عالمی سطح کی معیاری سہولتیں ریاستی خرچ پر دستیاب ہوں۔ جعلی ادویات کا قلع قمع ہو۔ جعلی ڈگری ہولڈر اور جعلی ڈگری دینے والے دونوں سے ایسے ہسپتال پاک ہوں اور 60 فیصد سے زائد نمبر لینے والوں کیلئے سرکاری شعبے میں طب اور انجیئرنگ کی تعلیم کے مواقع عام ہوں آبادی میں اضافے کے تناسب سے تا کہ ضلعی سطح پر میڈیکل سپشلسٹ، نیوروسرجن، آرتھوپیڈک سرجن، ہارٹ سرجن، سول سرجن، سائیکا ٹرسٹ نیز تمام دیگر شعبوں میں اختصاص کے حامل ڈاکٹر صاحبان دستیاب ہوں۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ بنیادی مراکز صحت اور تحصیل اور ضلعی سطح کے تمام ہسپتال کے ڈاکٹرز صاحبان ہیڈ انجری کے مریضوں، ہارٹ سرجری، دماغی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا مریضوں کو لاہور یا راولپنڈی ریفر کر دیتے ہیں خواہ دو دو سو کلومیٹر کا فاصلہ کیوں نہ طے کرنا پڑ جائے ایسے میں اکثر مریض راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اور عوام اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر برداشت کر لیتے ہیں۔ ہسپتالوں میں پینے کا صاف پانی مریضوں کیلئے معیاری کھانا، بجلی کی بلا تعطل فراہمی، ائیر کنڈیشنگ کا انتظام انتہائی ضروری ہے۔ آج کل اتنی سختیاں ہیں کہ غریب لوگ دماغی اور نفسیاتی مریض بن رہے ہیں جبکہ لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی تک غریب لوگوں کا پہنچنا اور ایک ہزار روپے ڈاکٹر کی فیس کم از کم، دوسرے ٹیسٹ کروانے پر پچاس ہزار اور ایک ماہ کی دوائی پچیس ہزار روپے کی۔ ایسے میں حکومت خود ہی سوچے غریب لوگ کدھر جائیں۔ اس پر ڈاکٹروں کی غفلت ایمرجنسییئوں میں ڈیوٹی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی عدم موجودگی کیونکہ 1:30 بجے کے بعد تمام ہسپتال بند ہوتے ہیں پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹر چھ بجے سے پہلے دستیاب نہیں ہوتے۔لگتا ہے کہ عوام اور اقتدار کے ایوانوں میں اور سول سوسائٹی میں سوچنے والا اور مسائل حل کرنے کیلئے بے تاب ایک بھی آدمی یا انسان موجود نہیں ہے۔ ایسی صوبائی مرکزی اسمبلیوں اور سینٹ اور کابینہ کے اراکین کو وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم اور صدر کو کیوں نہ اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا جائے جو دولت کی وافر مقدار کے ہوتے ہوئے ترجیحات بھی درست نہیں کر سکتے بلکہ اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38