” صرف ایک منٹ“
نمرہ اقبال
چند لفظوں پر مشتمل ”صرف ایک منٹ“ معمول کا جملہ ہے۔ بعض اوقات یہ جملہ بہت مہنگا پڑ جاتا ہے اور ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ گھر میں کسی بچے کو بلائیں تو اس کا جواب ہو گا آیا امی جان۔ ابا جان صرف ایک منٹ یہ معمول کا جملہ ہے لیکن صرف ایک منٹ میں بہت سے کام اچھے بھی ہو سکتے اور اگر لاپرواہی سے کام لیا جائے تو یہ صرف ایک منٹ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔جنید کا کام بھی یہی تھا۔ کوئی بھی کام کہتا تو جواب یہی ہوتا صرف ایک منٹ اگر کھانا کھانے کے لئے امی جان نے بلایا تو اس کا یہی جواب ہوتا اور خود ٹیلی ویژن دیکھنے میں مگن رہتا۔ سکول جانے سے قبل امی جان بلاتیں کہ ناشتہ تیار ہے لیکن وہی فقرہ صرف ایک منٹ۔ دوسری طرف لیٹ ہونے کی وجہ سے صبح دیر سے اُٹھنا اس کا معمول تھا اور پھر رفتہ رفتہ اس کی عادت پختہ ہو گئی۔ اکثر اوقات تو وہ صبح ناشتہ لئے بغیر سکول روانہ ہو جاتا جبکہ امی جان اسے کوستی رہتیں۔وقت گزرتا گیا۔ جنید کے میٹرک کے امتحانات شروع ہو گئے۔ رات گئے تک وہ پڑھتا رہا پھر یہ سوچ کر کہ باقی تیاری صبح نماز فجر کے وقت کر لوں گا۔ امی جان کو یہ کہہ کر سو گیا کہ مجھے صبح سویرے اذان کے وقت جگا دینا۔ رات امی جان نے کہا یہ بھی کہا تھا کہ نہا کر سونا صبح پھر تمہارے صرف ایک منٹ نے دیر لگا دینی ہے لیکن اس نے سُنی ان سنی کر دی اور یہ کہہ کر سو گیا صبح نہا لوں گا پھر یہ سوچ کر امتحان کی تیاری کرنے لگا کہ ابھی کافی وقت پڑا ہے۔ صبح ہوئی تو وہ نہانے کے لئے واش روم گیا۔ اسی دوران لوڈشیڈنگ نے کام دکھایا اور لائٹ چلی گئی اور لائٹ کے ساتھ پانی بھی گیا۔ اب کرے تو کیا کرے۔بڑی مشکل سے وہ جیسے جیسے کر کے نہایا،اسی دوران اس کے پندرہ منٹ ضائع ہو گئے۔ اس نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو اس کے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ پرچہ ساڑھے آٹھ بجے شروع ہونا تھا اور اس وقت آٹھ بج کر پچیس منٹ ہوئے تھے۔ جب وہ کمرہ امتحان پہنچا تو دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس نے لاکھ منت سماجت کی لیکن قانون قانون ہی ہوتا ہے چنانچہ ”صرف ایک منٹ“ کی عادت نے اس کا ایک سال ضائع کیا۔