رﺅف طاہر
گزشتہ روز لندن کی پریس کانفرنس میں نواز شریف سے ایک سوال امریکی سفیر کیمرون منٹر کے اس بیان کے حوالے سے بھی تھاکہ وہ امریکہ کے حامی ہیں جس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس کا جواب ہماری پالیسیوں سے مل جائے گا۔ ہمارے خیا ل میں اصل جواب بھی یہی بنتا تھا۔ زبانی دعووں کا کیا ہے؟ برسوں پہلے ڈاکٹر مبشر حسن لاہور پریس کلب آئے تو چائے پر گپ شپ کے دوران ترقی پسند تحریکوں کا ذکر بھی چھڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھاکہ دنیا میں 85 فیصد ترقی پسند تحریکیں سی آئی اے کی سپانسرڈ ہیں۔ پھر ہم نے پاکستان میں بھی دیکھا کہ ادھر سوویت یونین منہدم ہوا‘ ادھر پاکستانی ترقی پسندوں میں سے بیشتر مختلف این جی اوز کی آڑ میں امریکہ (اور مغرب) کو پیارے ہو گئے۔ میاں صاحب نے منٹر کے دعوے کا جواب اپنی آئندہ پالیسیوں پر ڈال دیا ہے لیکن اس کی کچھ جھلکیاں ہمیں ان کی گزشتہ پالیسیوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ محترمہ کے پہلے دور میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو اسلام آباد میں امریکی وائسرے کہا جاتا تھا۔ میاں صاحب برسرِاقتدار آئے تو اسے ان سے ملاقات کے لئے ہفتوں انتظار کرنا پڑا۔ مقصد رابرٹ اوکلے کو یہ احساس دلانا تھا کہ اب اسلام آباد میں اسے ایک مختلف وزیرِاعظم اور اس کی حکومت سے واسطہ ہو گا۔ انہی دنوں جنرل حمید گل بتایا کرتے تھے کہ آئی ایس آئی کو.... ”کٹ ٹو سائز“ کرنے کے مطالبے پر بھی امریکیوں کو مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ سوویت یونین کے خاتمے پر وسط ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں سمیت ایران، افغانستان، ترکی اور پاکستان پر مشتمل نئے اکنامک بلاک (E.C.O) کے قیام کو رکوانے کے لئے امریکیوں نے پاکستان پر کیا کیا دباو¿ نہ ڈالا لیکن اس بار بھی انہیں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ نواز شریف حکومت کی برطرفی (1993) کا کیس سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت تھا کہ ایک روز صدر غلام اسحاق خان کے وکیل نے کہا کہ وہ کچھ باتیں بند کمرے میں کہنا چاہتے ہیں۔ تب انہوں نے نواز شریف حکومت کی برطرفی کی وجہ یہ بتائی کہ امریکہ اور بھارت اس حکومت سے خوش نہیں تھے اور یوں پاکستان کے لئے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔
اپنے دوسرے دور میں نواز شریف نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف امریکہ اور یورپ کے بدترین دباو¿ کا جس طرح مقابلہ کیا‘ اس کی کچھ تفصیل امریکن سینٹر کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل زینی کی کتاب Battle ready میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ 2007 کے نصف آخر میں جب جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو صاحبہ کے درمیان این آر او کے خدوخال کو آخری شکل دی جارہی تھی، ستمبر میں نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان امریکیوں کے لئے کس قدر تشویش کا باعث تھا‘ وکی لیکس شاہد ہیں کہ امریکی اسے این آر او پر مشتمل نئے سیاسی نظام کے لئے کتنا خطرناک سمجھ رہے تھے۔ 10 ستمبر کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے جدہ جلاوطنی کے فیصلے کو امریکیوں کی پوری تائید حاصل تھی۔ یہ الگ بات کہ محترمہ کی آمد کے بعد نواز شریف کی واپسی کو روکنا ممکن نہ رہا۔
2 نومبر والی عدلیہ کی بحالی کے معاملے پر بھی جنابِ زرداری اور امریکی ایک ہی صحفے پر تھے۔ وہ باقی ججوں کی بحالی پر تو آمادہ تھے لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی واپسی انہیں کسی طور گوارہ نہ تھی۔ یہ حقیقت بھی وکی لیکس میں موجود ہے کہ اس حوالے سے امریکی سفیر این پیٹر سن کونواز شریف کا دو ٹوک جواب تھا کہ وہ افتخار چودھری کے بغیر عدلیہ کی بحالی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ 2 مئی کے ایبٹ آباد واقعہ اور پھر مولن کی دھمکیوں پر ستمبر کے اواخر میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف نے قومی وقار پر مبنی جو دو ٹوک موقف اختیار کیا‘ سلالہ سانحہ پر قومی خود مختاری کی مظہر قرارداد کی منظوری میں مسلم لیگ ن کا جو حصہ تھا اور پاکستان کے دفاعی اداروں کو امریکہ کے زیرِ اثر لانے والے میمو پر نواز شریف جس طرح کھل کر سامنے آئے،کیا اس کے بعد بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ وہ امریکہ کی حمایت میں اپنے قومی مفادات کا سودا کر سکتے ہیں؟
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ اقتدار میں نہیں رہے اس لئے مستقبل کے حوالے ان کے متعلق خوش گمانی سے ہی کام لینا چاہئے۔ البتٰہ اتنی سی بات تو سب کو معلوم ہے کہ مشرف نے ستمبر 2001 میں ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں خود کو امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنا کر پاکستان کی فضائیں، اس کا سمندر اور زمینی راستے سب کچھ امریکہ کے سپرد کر دیا تھا اور عمران خان اس کے بعد بھی سال بھر مشرف کے پرجوش حامی رہے۔ مشرف کا ریفرنڈم بھی اسی دوران ہوا۔ عمران خان کے دائیں بائیں موجود پاکستان کے تین سابق وزرائے خارجہ‘ آصف احمد علی، خورشید محمود قصوری اور شاہ محمود قریشی کا امریکہ سے کیا رویہ رہا‘ یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ جنابِ قصوری تو اسرائیلی وزیر خارجہ سے پرجوش مصافحہ کا شرف بھی رکھتے ہیں۔ انہی کی وزارتِ خارجہ کے دنوں جنرل مشرف کو امریکہ میں یہودیوں کی عالمی کانگریس سے خطاب کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔
سانحہ سلالہ کے بعد پاکستان دفاع کونسل امریکہ کے خلاف سرگرم ہوئی تو اس کے ابتدائی ایک‘ دو جلسوں میں سٹیج پر تحریکِ انصاف کی نمائندگی بھی نظر آئی۔ بعد میں یہ علامتی شرکت بھی نہ رہی تو اس میں بھی یقیناً کوئی قومی مصلحت ہو گی۔ گزشتہ روز کی پشاور ریلی کے حوالے سے ہمارے ایک دوست نے توجہ دلائی کہ عمران خان کی تقریر میں مہنگائی، لوڈشیڈنگ‘ کرپشن اور ڈرون حملوں سمیت سب کچھ تھا لیکن نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف ایک لفظ نہیں تھا لیکن ہمارے خیال میں بدگمانی کی ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سہواً ہو گیا ہو۔ جنابِ منٹر کے بقول نواز شریف امریکہ کے حامی ہیں تو اس کے مخالفین میں جنرل مشرف‘ جنابِ زرداری‘ راجہ اشرف‘ الطاف حسین اور اسفند یار ولی ہوں گے اور سب سے بڑھ کر چودھری برادران جنہوں نے اگرچہ چند روز قبل منٹر کے لئے الوداعی کھانے کا اہتمام کیا لیکن آپ اسے چودھریوں کی روایتی وضع داری سمجھ لیجئے۔
گزشتہ روز لندن کی پریس کانفرنس میں نواز شریف سے ایک سوال امریکی سفیر کیمرون منٹر کے اس بیان کے حوالے سے بھی تھاکہ وہ امریکہ کے حامی ہیں جس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس کا جواب ہماری پالیسیوں سے مل جائے گا۔ ہمارے خیا ل میں اصل جواب بھی یہی بنتا تھا۔ زبانی دعووں کا کیا ہے؟ برسوں پہلے ڈاکٹر مبشر حسن لاہور پریس کلب آئے تو چائے پر گپ شپ کے دوران ترقی پسند تحریکوں کا ذکر بھی چھڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھاکہ دنیا میں 85 فیصد ترقی پسند تحریکیں سی آئی اے کی سپانسرڈ ہیں۔ پھر ہم نے پاکستان میں بھی دیکھا کہ ادھر سوویت یونین منہدم ہوا‘ ادھر پاکستانی ترقی پسندوں میں سے بیشتر مختلف این جی اوز کی آڑ میں امریکہ (اور مغرب) کو پیارے ہو گئے۔ میاں صاحب نے منٹر کے دعوے کا جواب اپنی آئندہ پالیسیوں پر ڈال دیا ہے لیکن اس کی کچھ جھلکیاں ہمیں ان کی گزشتہ پالیسیوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ محترمہ کے پہلے دور میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو اسلام آباد میں امریکی وائسرے کہا جاتا تھا۔ میاں صاحب برسرِاقتدار آئے تو اسے ان سے ملاقات کے لئے ہفتوں انتظار کرنا پڑا۔ مقصد رابرٹ اوکلے کو یہ احساس دلانا تھا کہ اب اسلام آباد میں اسے ایک مختلف وزیرِاعظم اور اس کی حکومت سے واسطہ ہو گا۔ انہی دنوں جنرل حمید گل بتایا کرتے تھے کہ آئی ایس آئی کو.... ”کٹ ٹو سائز“ کرنے کے مطالبے پر بھی امریکیوں کو مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ سوویت یونین کے خاتمے پر وسط ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں سمیت ایران، افغانستان، ترکی اور پاکستان پر مشتمل نئے اکنامک بلاک (E.C.O) کے قیام کو رکوانے کے لئے امریکیوں نے پاکستان پر کیا کیا دباو¿ نہ ڈالا لیکن اس بار بھی انہیں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ نواز شریف حکومت کی برطرفی (1993) کا کیس سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت تھا کہ ایک روز صدر غلام اسحاق خان کے وکیل نے کہا کہ وہ کچھ باتیں بند کمرے میں کہنا چاہتے ہیں۔ تب انہوں نے نواز شریف حکومت کی برطرفی کی وجہ یہ بتائی کہ امریکہ اور بھارت اس حکومت سے خوش نہیں تھے اور یوں پاکستان کے لئے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔
اپنے دوسرے دور میں نواز شریف نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف امریکہ اور یورپ کے بدترین دباو¿ کا جس طرح مقابلہ کیا‘ اس کی کچھ تفصیل امریکن سینٹر کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل زینی کی کتاب Battle ready میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ 2007 کے نصف آخر میں جب جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو صاحبہ کے درمیان این آر او کے خدوخال کو آخری شکل دی جارہی تھی، ستمبر میں نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان امریکیوں کے لئے کس قدر تشویش کا باعث تھا‘ وکی لیکس شاہد ہیں کہ امریکی اسے این آر او پر مشتمل نئے سیاسی نظام کے لئے کتنا خطرناک سمجھ رہے تھے۔ 10 ستمبر کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے جدہ جلاوطنی کے فیصلے کو امریکیوں کی پوری تائید حاصل تھی۔ یہ الگ بات کہ محترمہ کی آمد کے بعد نواز شریف کی واپسی کو روکنا ممکن نہ رہا۔
2 نومبر والی عدلیہ کی بحالی کے معاملے پر بھی جنابِ زرداری اور امریکی ایک ہی صحفے پر تھے۔ وہ باقی ججوں کی بحالی پر تو آمادہ تھے لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی واپسی انہیں کسی طور گوارہ نہ تھی۔ یہ حقیقت بھی وکی لیکس میں موجود ہے کہ اس حوالے سے امریکی سفیر این پیٹر سن کونواز شریف کا دو ٹوک جواب تھا کہ وہ افتخار چودھری کے بغیر عدلیہ کی بحالی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ 2 مئی کے ایبٹ آباد واقعہ اور پھر مولن کی دھمکیوں پر ستمبر کے اواخر میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف نے قومی وقار پر مبنی جو دو ٹوک موقف اختیار کیا‘ سلالہ سانحہ پر قومی خود مختاری کی مظہر قرارداد کی منظوری میں مسلم لیگ ن کا جو حصہ تھا اور پاکستان کے دفاعی اداروں کو امریکہ کے زیرِ اثر لانے والے میمو پر نواز شریف جس طرح کھل کر سامنے آئے،کیا اس کے بعد بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ وہ امریکہ کی حمایت میں اپنے قومی مفادات کا سودا کر سکتے ہیں؟
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ اقتدار میں نہیں رہے اس لئے مستقبل کے حوالے ان کے متعلق خوش گمانی سے ہی کام لینا چاہئے۔ البتٰہ اتنی سی بات تو سب کو معلوم ہے کہ مشرف نے ستمبر 2001 میں ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں خود کو امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنا کر پاکستان کی فضائیں، اس کا سمندر اور زمینی راستے سب کچھ امریکہ کے سپرد کر دیا تھا اور عمران خان اس کے بعد بھی سال بھر مشرف کے پرجوش حامی رہے۔ مشرف کا ریفرنڈم بھی اسی دوران ہوا۔ عمران خان کے دائیں بائیں موجود پاکستان کے تین سابق وزرائے خارجہ‘ آصف احمد علی، خورشید محمود قصوری اور شاہ محمود قریشی کا امریکہ سے کیا رویہ رہا‘ یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ جنابِ قصوری تو اسرائیلی وزیر خارجہ سے پرجوش مصافحہ کا شرف بھی رکھتے ہیں۔ انہی کی وزارتِ خارجہ کے دنوں جنرل مشرف کو امریکہ میں یہودیوں کی عالمی کانگریس سے خطاب کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔
سانحہ سلالہ کے بعد پاکستان دفاع کونسل امریکہ کے خلاف سرگرم ہوئی تو اس کے ابتدائی ایک‘ دو جلسوں میں سٹیج پر تحریکِ انصاف کی نمائندگی بھی نظر آئی۔ بعد میں یہ علامتی شرکت بھی نہ رہی تو اس میں بھی یقیناً کوئی قومی مصلحت ہو گی۔ گزشتہ روز کی پشاور ریلی کے حوالے سے ہمارے ایک دوست نے توجہ دلائی کہ عمران خان کی تقریر میں مہنگائی، لوڈشیڈنگ‘ کرپشن اور ڈرون حملوں سمیت سب کچھ تھا لیکن نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف ایک لفظ نہیں تھا لیکن ہمارے خیال میں بدگمانی کی ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سہواً ہو گیا ہو۔ جنابِ منٹر کے بقول نواز شریف امریکہ کے حامی ہیں تو اس کے مخالفین میں جنرل مشرف‘ جنابِ زرداری‘ راجہ اشرف‘ الطاف حسین اور اسفند یار ولی ہوں گے اور سب سے بڑھ کر چودھری برادران جنہوں نے اگرچہ چند روز قبل منٹر کے لئے الوداعی کھانے کا اہتمام کیا لیکن آپ اسے چودھریوں کی روایتی وضع داری سمجھ لیجئے۔