مرنے والے مرتے ہیں لیکن ،فنا ہوتے نہیں!

معزز قارئین ! لاہور میں تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، میرے والد صاحب ، رانا فضل محمد چوہان کا وِصال 26/27 رمضان شریف (1420ھ ) 14/ 15 جنوری کی درمیانی شب 1999ء کو ،ہُوا تھا۔ تحریک پاکستان کے قائدین اور کارکنان اِس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ’’ 26/27 رمضان شریف 1366 ھ ، 14 اگست 1947ء کو، پاکستان قائم ہُوا تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ 26/27 رمضان اُلمبارک 1435 ھ ( 26 جولائی 2014ء ) کو ، ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی کا بھی وِصال ہُوا تھا۔
میرے والد صاحب ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے نیشنل گارڈز کو دہشت گرد ہندوئوں اور سِکھوں سے لڑنے کیلئے ’’ لٹھ بازی‘‘ سِکھایا کرتے تھے ۔سِکھ ریاستوں ، نابھہ اور پٹیالہ اور ضلع امرتسر میں ہمارے خاندان کے 26 افراد بھی سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ۔قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب کی قیادت میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا تھا۔ سرگودھا میں والد صاحب کی کتابوں کی دُکان تھی۔
’’ دربار حضرت داتا صاحب ! ‘‘
مَیں 1955ء میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب، میرے والد صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے ۔مَیں اُن کی قیادت میں احاطۂ دربار داتا گنج بخش میں حاضر ہُوا تو، ہم دونوں نے پہلے (اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد ) خواجہ غریب نواز، نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین اُلدّین چشتی کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر بارگاہِ حضرت داتا صاحب میں ۔ پھر یہ میرا معمول بن گیا۔ دراصل مجھے میرے والد صاحب نے حضرت داتا گنج بخش کی بارگاہ میں حاضری کے آداب سِکھائے تھے ۔ میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے ۔ 1956ء میں مَیں نے میٹرک کِیا اور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو ، لائل پور ( فیصل آباد) کے ڈیلی ’’بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہُوئی۔ مَیں 1960ء میں اردو اور پنجابی کا باقاعدہ شاعر ہوگیااور مسلک صحافت اختیار کرلِیا۔
’ ’ کشف اُلاسرار کا نسخۂ کیمیا ! ‘‘
حضرت داتا گنج بخش نے اپنی تصنیف ’’کشف الاسرار ‘‘ میں فرمایا کہ ’’ اگر کوئی مسلمان ،مشکلات کا شکار ہو تو، وہ اپنے والد صاحب سے کہے کہ ’’ ابو جی !آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں !‘‘ اور اگر والد صاحب حیات نہ ہوں تو، وہ خود اُن کی قبر پر جا کر ،اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ’’ یا اللہ !۔ میرے والد صاحب کے صدقے ،میری مشکلات دور کردیں، تو اللہ تعالیٰ وہ مشکلات دور کردیتے ہیں!‘‘۔ میرے والد صاحب ،جب تک سلامت رہے ، مَیں اُنہی سے عرض کِیا کرتا تھا کہ ’’ ابو جی !۔ آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں !‘‘ لیکن، جب ،88 سال کی عمر میں 15 جنوری 1999ء کو میرے والد رانا فضل محمد چوہان ، خالق حقیقی سے جا ملے تو، مَیں اُن کی قبر پر جا کر ، اُن کے صدقے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہُوں تو ، اللہ تعالیٰ میری وہ دُعا ضرور قبول فرماتے ہیں۔
اپنے والد ِ محترم کی دُعائوں سے مَیں نے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کے طور پرآدھی دُنیا کی سیر کی اور میری زندگی کا حاصل یہ ہے کہ ’’ مجھے ’’نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے ، ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہونے کا شرف حاصل ہُوا۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ضرور ملا ہوگا۔ ’’مجاہد ِ تحریک پاکستان ‘‘ اور ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ کی حیثیت سے جنابِ مجید نظامی نے جو خدمات انجام دِی ہیں اُن پر مَیں نے کئی نظمیں لکھی ہیں۔
’’ ہر وقت میرے دِل میں ! ‘‘
میرے والد ِ محترم ہر وقت میرے دِل میں رہتے ہیں اور مَیں سوچتا ہُوں کہ’’ جب جنابِ مجید نظامی نے مجھے شاعرِ نظریۂ پاکستان کا خطاب اور آغا حامد علی شاہ موسوی نے ’’ حسینی راجپوت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا تو، کاش میرے والد صاحب حیات ہوتے ؟‘‘ معزز قارئین !۔ دو روز قبل مدیرانِ ’’سویرا‘‘ اسلام آباد ، میرے دو چھوٹے بھائی محمد علی چوہان، محمد سلیم چوہان اور میرا ایک بھتیجا قاسم علی چوہان میرے ساتھ حضرت داتا دربار پہنچے تو حسب معمول ہم نے پہلے اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر حضرت داتا گنج بخش کی بار گاہ میں ۔ مجھے دُکھ ہُوا کہ ’’میرا ایک بھائی لیاقت علی چوہان خرابی صحت کی بناء پر اسلام آباد سے لاہور ہمارے ساتھ شامل نہیں تھا۔
’’فضلِ رحیم ، مُحکم خان!‘‘
معزز قارئین !۔ میرے والد رانا فضل محمد چوہان اور میرے دادا رانا عبداُلرحیم خان چوہان اور میرے پردادا رانا مُحکم خان کے ناموں کا ایک مصرع بنا کر مَیں نے ایک نظم لکھی تھی ۔ملاحظہ فرمائیں …؎
بندۂ اِیمان و اِیقان!
مردِ جری، مردِ میدان!
صاحب عظمت صاحب شان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
خاک پائے، شاہِؐ مدینہ!
یادِ علیؓ سے روشن سِینہ!
خواجہ چشتی سے فیضان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
حُسن سلوک کا، نور مجسم!
اَپنوں بیگانوں کا ہَمدم!
فقر میں بھی، مِثلِ سلطان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
صبر و رضا کا مثالی پیکر!
جیسے ہر نعمت ہو مُیسر!
عکسِ صبیح سورہ رحمن!
فضلِ رحیم، محکم خان!
دِل کے نگر پہ، اُداسی برسے!
اب تو چمن، خوشبو کو ترسے!
روٹھ گئی، بنسی سے تان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
شفقت ہے نہ سایۂ شفقت!
ہم تو ہُوئے، محرومِ محبت!
کیسے ہو، دِل کا دَرمان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
رنج و غم کو، دِلوں میں سمیٹے!
تنہا تنہا، آپ کے بیٹے!
بیٹیاں، کھو بیٹھیں، اَوسان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
اِک دِن وَصل کے، پھول کھلیں گے!
ہم سب ، آپ سے، آن ملیں گے!
کب تک جئیں گے؟ اثر چوہان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
معزز قارئین !۔ 1915ء میں عاشق رسول ؐ ، مصورِ پاکستان ، علاّمہ محمد اقبال کی والدہ ٔ محترمہ کا انتقال ہُوا تو، اُنہوں نے ہر مرنے والے مسلمان کے پسماندگان کیلئے ایک نظم لکھی تھی ، جس کا ایک شعر یہ بھی ہے کہ …
’’ مرنے والے مرتے ہیں لیکن، فنا ہوتے نہیں!
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں!‘‘