نثار عثمانی

نثار عثمانی کسی اخبار کے مالک تھے نہ ایڈیٹر لیکن ایک کارکن، صحافی، ایک رپورٹر، ایک ٹریڈ یونین لیڈر اور سب سے بڑھ کر شہری اور صحافتی آزادیوں کی حفاظت کے لئے عمر بھر جنگ لڑنے والے سپاہی کی حیثیت سے ہماری صفوں میں ممتاز رہے اور ایثار و قربانی اور خلوص و وفا کی ایسی داستاں رقم کرتے چلے گئے جس پر نہ صرف انکے رفقاء اور ہم عصر فخر کرتے ہیں بلکہ پاکستان میں شہری آزادیوں کیلئے صبر آزما جدوجہد کی تاریخ جب لکھی جائیگی تو ان کا نام سب سے نمایاں ہوگا۔
نثار عثمانی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے پاکستان میں فوجی اور سول آمریتوں کا ایک طویل عہد نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور ان سارے ادوار کی گرد سے نثار عثمانی کا تاباںو فرحاں چہرہ ابھرتا ہے۔ وہ ہر آمر کیخلاف اسکے منہ پر کلمۂ حق کہتے رہے۔سچی بات یہ ہے کہ یہ توفیق ہم میں سے کم لوگوں کوہی نصیب ہوئی۔ اس اعتبار سے وہ ایک منفرد صحافی تھے، انہیں اللہ تعالیٰ نے بلا کا حوصلہ دیا تھا اور وہ جچے تلے الفاظ میں اپنے استفہامیہ انداز میں وقت کے حکمرانوں کے سامنے وہ سب کچھ کہتے رہے جو اس وقت کہنے کی ضرورت تھی اور جس کی ہمت سیاست دانوں اور اہلِ صحافت کو نہیں ہوتی تھی۔ مجھے کچھ کچھ یاد ہے کہ میں نے جناب نثار عثمانی کو اٹھائیس برس قبل پہلی بار اس وقت دیکھا جب جناب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہونے کے بعد ریل گاڑی کے ذریعے راولپنڈی سے لاہور آئے، نثار عثمانی لاہور ریلوے سٹیشن کے لائونج میں اپنے صحافی دوستوں میں گھرے ہوئے ریل گاڑی کی آمد کے منتظر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ایوب حکومت کو ہٹانے کی جدوجہد میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کر داخل ہوئے تھے اور لاہور ریلوے سٹیشن پر پاکستان کی تاریخ کے پہلے ٹرین مارچ میں عوام کا سیلاب دیکھ کر جناب نثار عثمانی کا چہرہ دمک رہا تھا، دبلے پتلے اور لانبے نثار عثمانی کا یہ بشاش چہرہ آج بھی میری نظر میں محفوظ ہے۔
صحافت پرپابندیوں کیخلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی جدوجہد میں جناب نثار عثمانی پیش پیش رہے۔ لاہور کے گورنر ہائوس میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرنے والے تھے، پی ایف یو جے نے ’’ہفتہ سیاہ‘‘ منانے کا اعلان کیا ہوا تھا جس کے تحت اسکے ہر ُرکن کو اپنے بازو پر سیاہ پٹی باندھنا تھی۔ اخبار نویس گورنر ہائوس کے دربار ہال میں داخل ہو رہے تھے، پی ایف یو جے کے رکن رپورٹروں نے اپنے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھے ہوئے تھے اس وقت کے صوبائی سیکرٹری انفارمیشن جناب شیخ حفیظ الرحمن اور ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز سید عابد علی شاہ اخبار نویسوں بالخصوص انکے لیڈر جناب نثارعثمانی سے التجائیں کر رہے تھے کہ وہ ہال میں جانے سے قبل سیاہ پٹیاں اتاردیں لیکن نثار عثمانی نے یہ بات نہ مانی اور سب اخباری رپورٹر سیاہ پٹیوں کیساتھ ہی پریس کانفرنس میں شریک ہوئے، جناب ذوالفقار علی بھٹو ہال میں داخل ہوئے تو یہ منظر دیکھ کر غصہ میں آگئے اور انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سیاہ پٹیاں باندھنے پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔وہ غصہ سے بھرے ہوئے لب و لہجہ میں فرمارہے تھے کہ میں بہت بڑا ایجی ٹیٹر ہوں، میں نے بڑے جلسے کئے ہیں، بہت جلوس نکالے ہیں، بڑی ریلیاں کی ہیں، بہت دن اور مہینے منائے ہیں لیکن میں آج تک اپنے بازو پر سیاہ پٹیاںباندھ کر کسی کے گھر نہیں گیا مگر یہاں میں ایک عجیب منظر دیکھ رہا ہوں کہ آپ میری دعوت پر یہاں آئے ہیں اور آپ نے میرے ہی خلاف اپنے بازوئوں پر احتجاجی پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ جناب بھٹو کے تیور بتارہے تھے کہ شاید وہ پریس کانفرنس سے اٹھ کرچلے جائیں یا کسی اور رد عمل کا اظہار کریںکہ نثار عثمانی اپنی نشست سے اٹھے اور جناب بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سیاہ پٹیاں آزادیٔ صحافت کی حفاظت کے مقصد کی خاطر اپنی جماعت کے فیصلے کے تحت باندھی ہیں، یہ احتجاجی ہفتہ فلاں تاریخ کو شروع ہوا ہے اور فلاں تاریخ کو ختم ہوگا اور اس عرصے میں ہم اپنی جماعت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے سیاہ پٹیاں باندھ رہے ہیں۔ آپکی طرف سے ملاقات کی دعوت ہمیں کل شام موصول ہوئی ہے اس لئے آپ اس پر اس قدر برافروختہ نہ ہوں۔ جناب عثمانی کے انداز سے یہ احساس ہورہا تھا کہ وہ شاید اخبار نویسوں کی طرف سے مزید کسی سخت ردعمل کا اظہار کرینگے کہ انکی گفتگو میں قدرے وقفہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان ایڈیٹر عارف نظامی نے ایک سوال داغ دیا اور اس طرح اس وقت کے آمر اور شہری آزادیوں کی جدوجہد کے ایک سپاہی کے مابین یہ مکالمہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ (جاری)