ترقی پذیر ممالک کی مالی معاونت کی ضرورت
اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی معاشی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت نسبتاً بہتری کی طرف گامزن ہے جس کی اہم وجوہات نجی شعبے میں طلب‘ بیرون ملک سے بھجوائی جانیوالی ریکارڈ ترسیلات زر اور مالی مدد رہی۔ رپورٹ کے مطابق 2021ء میں پاکستان کی معیشت 4.5 فیصد کی شرح سے بہتر ہوئی جبکہ سال 2022ء میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافہ 3.39 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
دو سال قبل دنیا کو اپنے شکنجے میں لینے والے کرونا وائرس نے جہاں ترقی یافتہ ممالک کی مضبوط معیشتوں کو غیرمستحکم کیا‘ وہیں اس نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی کمزور معیشتوں کا بھی انجرپنجر ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی دگرگوں تھی جسے سنبھالا دینے کیلئے سعودی عرب‘ امارات اور چین جیسے دوست ممالک سے بیل آئوٹ پیکیج کا سہارا لینا پڑا‘ اسکے باوجود ملکی معیشت میں استحکام نہ آیا تو حکومت کو آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا پڑا اور مشکلات سے دوچار پاکستان انکی کڑی شرائط پرسخت معاہدے کرنے پر مجبور ہوا۔ ان قرضوں سے ملکی معیشت کو وقتی طور پر سہارا ملا لیکن قرضوں اور ان پر لگے سود کی ادائیگی کیلئے حکومت کو نئے ٹیکسز لگانے پڑے اور ضمنی میزانیوں کے ساتھ بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات میں آئے روز اضافہ کرنا پڑا جس سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ حکومت کے ان اقدامات کے باوجود معیشت کو استحکام نہ ملا تو وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ کورونا وائرس سے لڑتے پاکستان جیسے غریب ممالک جو بہت کمزور ہیں ان کیلئے کچھ قرضے معاف کرنے پر غور کیا جائے یا صورتحال کے پیشِ نظر تمام ترقی پذیر معیشتوں کے قرضوں میں کمی اور ری اسٹرکچرنگ کی جائے تا کہ وہ اپنے وسائل کا استعمال عوام کو ریلیف پہنچانے اور انکی جان بچانے کیلئے کرسکیں۔ وزیراعظم کی اس اپیل پر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والے جی 20 ممالک کے اجلاس میں پاکستان کو ان ممالک میں شامل کرلیا گیا جو باضابطہ دو طرفہ قرض دہندگان کو قرضوں اور ان پر عائد سود کی ادائیگیوں میں ریلیف کے اہل تھے۔ اجلاس میں جی 20 ممالک نے عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر زور دیا تھا کہ غریب ممالک کیلئے قرضوں میں ریلیف کو توسیع دی جائے جس پر جی 20 ممالک نے قرض دہندہ اداروں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ساتھ قرضوں میں ریلیف کا فیصلہ کیا ۔متذکرہ جی۔20 اجلاس میںجس میں عالمی رہنماؤں نے کووِڈ 19 کے ترقی پذیر ممالک پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار اور عالمی معاشی تحفظ پر اتفاق کیا تھا ‘ اب تک قرض ادائیگی کی معطلی سے پاکستان جیسے ممالک کو 20 فیصد سے کم ریلیف ملاجو جی ڈی پی کے ایک اعشاریہ چھ فیصد کے برابر ہے۔اب اقوام متحدہ کی عالمی معاشی صورتحال پر جاری کی گئی رپورٹ میں پاکستانی معیشت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے تاہم پاکستانی معیشت اب بھی مشکلات سے دوچار ہے جس کے استحکام کیلئے حکومت کو ضمنی میزانیوں میں ٹیکسز اور پٹرولیم‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں آئے روز ااضافہ کرنا پڑتا ہے جس سے مشکلات میں گھرے عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو معیشت کیلئے ریونیو کی بحالی اور کثیرالجہتی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت دوسرے کمزور ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے اقوام متحدہ اور جی 20 رکن ممالک کو آگے آنا چاہیے اور مناسب مالی معاونت کرکے انکی معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کرنی چاہیے جس کیلئے وزیراعظم عمران خان پہلے ہی اپیل کر چکے ہیں۔