حرف دلگیر
گزشتہ سے پیوستہ
ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں کو اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی پر صلہ ملے جبکہ حیثیت بھی برابری کی ہو کیونکہ دونوں جسمانی اور مالی طور پر ایک دوسرے کا حق ادا کرتی ہیں۔۔۔سو برابری کی بنیاد پر ربط رکھتیہیں۔۔۔مگر افسوس ہمیں یہ برابری عموما کسی طور نظر نہیں آتی۔۔۔اسی طرح معاشرے کے مختلف پیشوں سے منسلک غریب اور کم حیثیت لوگ معاشرتی ناانصافی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔جبکہ اللہ کی حکمت ان تمام کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح کرتی ہے۔
اگر مزدور نہ ہو تو تعمیرات ناممکن۔ کسان نہ ہو تو کھیتی باڑی ناممکن۔۔۔موچی نہ ہوتو جوتوں کی مرمت ناممکن۔۔۔کمہار نہ ہو تو برتن نہ بنیں ۔ جولایا نہ ہو تو کپڑا نہ بنے۔۔۔کان کنی کرنے والے مزدور اپنی اہمیت کے حامل ہیں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔دفتر کے باہر موجود آفس بوائے نہ ہو تو افسر کی گھنٹی پہ جی حضور کہہ کے اسے افسر کون ثابت کرے۔ دروازے پہ کھڑا گارڈ نہ ہو تو کسی ادارے کا نظم و ضبط کیسے قائم رہے۔۔۔جھاڑو دینے والے نہ ہوں تو صفائی کیسے ہو۔۔۔کوڑا اٹھانے والے نہ ہوں تو گھروں گلیوں اور بازاروں میں کوڑے کے ڈھیر لگ جائیں۔۔۔گٹر صاف کرنے والے نہ ہوں تو سیوریج کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے۔۔۔غرض معاشرے کی بقا کے لیے تمام چھوٹی بڑی حیثیت کے حامل لوگ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اپنے تئیں ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ناگزیر حیثیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے بغیر معاشرے کی عمارت مسمار ہو سکتی ہے۔۔۔لیکن اس قدر اہمیت و ضرورت کے باوجود ان کرداروں کی اکثریت پر ظلم و جبر ہمارے معاشرے کا ناسور ہے۔۔جس قدر نا انصافی اور غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی رویے کا شکار یہ لوگ ہیں یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔۔۔اس نا انصافی ظلم و جبر اور غیر انسانی سلوک کے خلاف اول تو آواز اٹھائی نہیں جاتی اور اگر اٹھائی بھی جائے تو دبا دی جاتی ہے۔۔۔مظلوم و بے کس طبقے کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔۔۔سو یہ لوگ اپنی مجبوریوں کی چکی میں پستے پستے زندگی کی گاڑی کو گھسیٹتے رہتے ہیں۔
اسلام جو دین فطرت ہے۔۔بہترین لائحہ عمل عطا کرتا ہے اور معاشرے کے تمام افراد کے حقوق و فرائض اور ان کی معاشرتی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔۔۔محنت دیانت انصاف اور مساوات اسلامی معاشرے کے وہ ستون ہیں جو جس دور میں بھی مضبوط ہوئے اسلامی معاشرہ ترقی کی رفعت پر پہنچا۔۔۔صدقات۔۔۔خیرات۔۔۔زکواۃ۔۔۔۔صلہ رحمی۔یہ سب دراصل نظام معاشرہ کی تکمیل مضبوطی اور ترقی کے بنیادی ذریعے ہیں۔۔۔جن پر عمل کرنے سے ایک خوشگوار پرسکون اور پر امن معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے اور ہر طرف انصاف اور مساوات کا بول بالا ہوسکتا ہے۔۔۔مزید یہ کہ کسی بھی معاشرتی حیثیت میں خود کو برتر سمجھنا اور دوسروں کو کم تر سمجھنا ایک انتہائی غیر اخلاقی غیر دانشمندانہ اور نامناسب رویہ ہے جس کا کسی طور کوئی جواز نہیں بنتا۔۔۔۔سب کا خالق وہ ایک اللہ ہے اور وہی اس بات پہ قادر ہے کہ کس کو کس معاشرتی کردار میں کس مقام پر کس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے فائز کیا جائے۔۔ہر ایک اپنے تئیں بلند و برتر ہو سکتا ہے جو اپنی ذمہ داری کو بخوبی سر انجام دے۔اب وہ چاہے بادشاہ ہو یا غلام۔۔۔مزید یہ کہ برتری صرف اور صرف تقوی کو حاصل ہے۔۔۔اور حدیث نبوی کے مطابق بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہے"تحریر ھزا میں قلم فرسائی صرف اکثریتی رویے کی عکاس ہے وگرنہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بددیانتی اور بے ایمانی اس بظاہر نچلے طبقے میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہیں۔۔۔اور یہ طبقہ بھی اپنے فرائض کی بخوبی ادائیگی سے روگردانی کرتا نظر آتا ہے۔۔۔مثال کے طور پر کام والیوں نے عموما پانچ پانچ گھروں کے کام ذمے لیے ہوتے ہیں اور کہیں بھی حق ادا نہیں کرتیں۔۔۔چوری چکاری کی عادت بھی عام ہے۔۔اسی طرح دیگر نے بھی مختلف انداز میں۔بد دیانتی کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ معاشرے میں درد دل رکھنے افراد بھی یقینا پائے جاتے ہیں۔ایسے ہی لوگ جو خدا کی تقسیم پر شکر ادا کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور ادا کرتے ہیں معاشرے کی بقا کا باعث ہیں۔۔ایک مضبوط و مربوط معاشرے میں دونوں طائفہ انسانی اپنا اپنا اہم کردار ادا کر تے ہیں۔۔۔۔اور ایک دوسرے کی اہمیت اور ضرورت سے واقف ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔وما علینا الاالبلاغ