موسم گرما کیلئے کے الیکٹرک کو مطلوبہ مقدار اور پریشر کیساتھ گیس فراہمی ازحد ضروری

شدید سردی یا گرمی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک امتحان کی مانند ہوتی ہے جسے گزارنے کے لیے بہترین یوٹیلیٹی خدمات کی فراہمی ان کے لیے ازحد ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت کراچی میں سردی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جو کچھ دنوں کے لیے شدید ہوجاتی ہے ، تاہم پھر اچانک ماند بھی پڑ جاتی ہے۔ اس موسم میں پنکھے اور دیگر برقی آلات کے استعمال کی ضرورت کم ہی پیش آتی ہے اس لیے لوگوں کے لیے سردیاں گزارنا نسبتاً اتنا کٹھن نہیں ہوتا۔ مگر چند مہینوں بعد ہی کراچی میں موسم گرما شروع ہونے کو ہے اور جون، جولائی میں یہ گرمیاں اپنے جوبن پر ہونگی ایسے میں لوگوں کو بجلی کی بلا رکاوٹ فراہمی کی اشد ضرورت ہوگی جسے ممکن بنانے کے لیے کے الیکٹرک نے ابھی سے جدوجہد شروع کردی ہے۔ادارے نے آئندہ گرمیوں کی صورتحال اور بجلی کی طلب کا اندازہ کرتے ہوئے سوئی سدرن گیس کمپنی سے درخواست کی ہے کہ وہ جلد از جلد گیس سیل معاہدے پر عملدرآمد ممکن بنائے اور اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ گرمی کے دوران پاور کمپنی کو مطلوبہ گیس کی فراہمی ممکن بنائی جائیگی تاکہ بجلی کے پیداوار پلانٹ پوری استعداد کے ساتھ چلائے جاسکیں۔اس سلسلے میں بجلی کمپنی کی جانب سے اب تک گیس کمپنی کو کئی خطوط بھی لکھے جاچکے ہیں۔ تاہم جس چیز نے صورتحال کو گھمبیر بنادیا ہے وہ کے الیکٹرک پر ایس ایس جی سی کے متنازع واجبات ہیں ۔ یہ واجبات اور ان کی ادائیگی کا مسئلہ یوں متنازع ہے کہ اصل رقم پر گیس کمپنی کی جانب سے سالوں سے سود شامل کیا جارہا ہے جو کہ اب کافی بڑھ چکا ہے جبکہ کے الیکٹرک کا موقف ہے کہ کئی حکومتی ادارے اس کے نادہندہ ہیں اور اس نے اپنے بقایا جات پر کوئی سود شامل نہیں کیا ، اس لیے ایس ایس جی سی بھی اپنے تقاضے کو جائز بناتے ہوئے اصل رقم پر گفت و شنید کرے۔ سود کا یہ متنازع معاملہ اب عدالت میں زیر سماعت ہے اور کوئی بھی فیصلہ آنے تک سود کی رقم کا تقاضہ مناسب نہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کے الیکٹرک 2012سے باقاعدگی کے ساتھ ایس ایس جی سی کو رقم کی ادائیگی کررہا ہے اور بجلی کمپنی میں اس میں کسی طرح کی کوئی بھی رکاوٹ نہیں آنے دی۔اس کے برعکس کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سمیت دیگر حکومتی اداروں کی کراچی کے لیے اہمیت کے پیش نظر اربوں کے واجبات ہونے کے باوجود کے الیکٹرک نے کبھی ان کی سپلائی منقطع نہیں کی۔ اب اگر گرمیوں کے دوران گیس کی مطلوبہ مقدار اور پریشر کے ساتھ فراہمی ممکن نہیں بنائی جاتی تونہ صرف گھریلو صارفین بلکہ تجارتی اور صنعتی صارفین بھی بری طرح متاثر ہونگے ۔تجارتی صارفین کو بجلی نہ ملی تو کاروبار کی روانی میں فرق آئے گا اور بالخصوص چھوٹے کاروباری حضرات کے لیے مشکل حالات پیدا ہونگے۔ صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی کمیابی کا مطلب نہ صرف ملکی برآمدات میں کمی ہے بلکہ اس سے کئی لوگوں کے بے روزگار ہونے کا بھی خدشہ ہے۔اس کے علاوہ ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کی صورت میں یہ مہنگی ہوگی اور اس مہنگی بجلی کا بوجھ صارفین پر پڑے گاجس سے تمام طبقات متاثرہونگے۔ اس لیے گرمیوں میں گیس کی عدم فراہمی کے باعث بجلی کی پیداوار میں کمی سے ملکی معاشی صورتحال پر کافی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ایس ایس جی سی جیسا بڑا قومی ادارہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے نجی سیکٹرمیںاچھی ساکھ کی حامل پاور کمپنی کے لیے دشواریاں پیدا نہ کرے۔کے الیکٹرک پہلے ہی متنازع سود اور واجبات کے مسئلے کو عدالتی حکم کی روشنی میں حل کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ گیس کمپنی کو اصل رقم کی متواتر ادائیگی بھی جاری ہے تو ایس ایس جی سی کو بھی آئندہ گرمیوں کے حوالے سے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھاناہوگی۔
حذیفہ شمسی،کراچی