ہفتہ ‘ 2؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 16؍ جنوری 2021ء
بلیک آئوٹ سے گھنٹوں میں نکل آئے ، بڑے ملکوں میں کئی دن لگ جاتے ہیں: عمر ایو ب
پتہ نہیں ، عمر ایوب نے بلیک آئوٹ کا کن بڑے ملکوں کے ساتھ تقابل کیا ہے جس کے بعد ان کو اپنی کارکردگی اتنی اچھی نظر آئی کہ وہ بے ساختہ پکار اٹھے کہ ’’بلیک آئوٹ سے گھنٹوں میں نکل آئے جبکہ بڑے ملکوں میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔‘‘ ہمارے ہاں جو محکموں کی کارکردگی ہے اس لحاظ سے تو عمرایوب کی وزارت واقعی ستائش اور تحسین کی مستحق ہے کیونکہ ہمارے ملک جیسی افسر شاہی سے کسی دوسرے ملک کو پالا پڑ جائے تو پھر واقعی بلیک آئوٹ سے نکلنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں ، چلیں یہ بھی ایک اچھا شگون ہے کہ ہم کسی نہ کسی طرح تو مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں ، عمر ایوب کی سربراہی میں وزارت توانائی کی کارکردگی اتنی مثالی ہو چکی ہے کہ اب اگر امریکہ ، برطانیہ سمیت کسی بھی بڑے ملک میں بلیک آئوٹ ہوا تو پاکستان کی وزارت توانائی کی خدمات حاصل کریں گے ویسے بڑے ملکوں میں اگر ایسا بلیک آئوٹ ہو جائے تو جونیئر سٹاف اور ٹیکنیکل عملے کو قربانی کا بکرا بنانے کا رواج کم ہی ہے بلکہ وزیر موصوف کے استعفے کی روایت موجود ہے بقول اکبر الہ آبادی…؎
غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا
افعال مضر سے کچھ نہ کرنا اچھا
اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی
جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا
٭٭٭٭٭
بھارتی جمہوریہ کی پریڈ میں کسی غیر ملکی شخصیت نے شرکت پر آمادگی ظاہر نہیں کی
بھارتی سرکار نریندر مودی کی ہندو انتہا پسندی کو تو پوری دنیا جان چکی ہے ، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جس ظالمانہ طریقے اور بدترین کرفیو سے آواز حریت کو دبانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے ایسے حالات میں کسی غیر ملکی شخصیت کا بھارتی یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شرکت کرنا ’’کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا‘‘ کرنے کے ہی مترادف ہے۔ دوسری طرف سکھوں نے بھارتی یوم جمہوریہ پر 26 جنوری کو خالصتان کا پرچم لہرانے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ سکھوں کی تنظیم ’’سکھ فار جسٹس‘‘ نے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام خط بھی لکھ دیا ہے کہ بھارتی پنجاب کو سکھ ایک آزاد ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس تناظر میں -15 اگست سے برطانیہ میں ’’پنجاب ریفرنڈم کمیشن‘‘ کی زیر نگرانی خالصتان کے لیے ریفرنڈم بھی کرایا جائے گا۔ مودی سرکار کی انسانیت دشمن پالیسیوں کے باعث ہی ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ویسے مودی کے لیے ایک آپشن موجود ہے کہ وہ ایک ، دو دن کے ’’مہمان‘‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی بلا لیں وہ یقیناً آ جائیں گے کیونکہ دوستی کا پتہ تو اچھے برے دنوں میں ہی لگتا ہے۔ اب دونوں کے ہی برے دن شروع ہیں تو دونوں بیٹھ کر رند لکھنوی کا شعر کنگنائیں۔
آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل
٭٭٭٭٭
سینٹ کو پہلی بار نیب سے خطرہ ہے : سلیم مانڈوی والا
سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینٹ ہیں ، ہفتے عشرے سے ان کے اور نیب کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے اب انہوں نے انتہائی تشویش کااظہار کیا ہے کہ ’’سینٹ کو پہلی بار نیب سے خطرہ ہے۔‘‘ اب پتہ نہیں ، نیب نے کون سا ایسا ’’سندیسہ ‘‘ بھیج دیا ہے جس سے سلیم مانڈوی والا نے پورے سینٹ کے لیے خطرہ محسوس کیا ہے۔ حالانکہ خطرہ ایک آدھ سینیٹر کو تو ہو سکتا ہے پورے سینٹ کو نہیں ، کیونکہ سینٹ کو خطرہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا ایوان خدانخواستہ کسی آئینی پیچیدگی کی زد میں آ گیا ہے اور اس کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے لیکن ایسا بالکل ہے نہ فکر مندی کی کوئی بات ۔ کیونکہ کسی سینیٹر کو نیب سے خطرہ ہے تو اس کو پورے ایوان بالا سے نہیں جوڑا جا سکتا اور نیب کی طرف سے خطرہ یونہی بے سبب نہیں ہوتا ، ’’بلکہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔ اسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’پالا پاپاں دا ، یا بھیڑیاں ساقاں دا‘‘ جس کا عام اور سادہ مفہوم یہ ہے کہ نیب سے خطرہ اسی کو ہو گا جو نیب کے ’’ریڈار‘‘ میں آئے گا۔ اس لیے سلیم مانڈوی والا پریشان ہوں نہ خوف زدہ۔
کیونکہ بقول جالب
خطرہ ہے زردارو ں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں ’’سینٹ‘‘ نہیں
٭٭٭٭٭
صوبائی وزیر اسلم اقبال نے لاہور میں کچرے کا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال دیا
کسی حکومت ، ادارے یا محکمے میں جو بھی خرابی ہو وہ ’’سابقین ‘‘ کے کھاتے ڈالنا رواج بن گیا ہے اور اسی کو کارکردگی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمارے وزراء ، ارکان اسمبلی اور سیاستدانوں کا رویہ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں۔ ہر خامی ، کوتاہی اور برائی ’’سابقہ ‘‘ کے کھاتے ڈال دیتے ہیں خواہ وہ خامی یا کوتاہی کسی محکمہ کے سربراہ یا وزارت کی تبدیلی سے ہی پیدا ہوئی ہو۔ اسی طرح ہر خوبی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی جاتی ہے خواہ اس معاملے کا تعلق ان کے سیاست میں ’’ورود مسعود‘‘ سے بھی پہلے کا ہو۔ ہماری حکومت کے عہدیداروں اور سیاستدانوں نے ’’سابقہ ، سابقہ ‘‘ کی گردان‘‘ کو ہی کار کردگی سمجھ لیا ہے کیونکہ جھوٹ بار بار بولا جائے تو بولنے والے کو سچ لگنے لگتاہے۔ اب اگر ساری مہنگائی ، کرنسی کی بے قدری ، پٹرولیم مصنوعات ، بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور کوڑے کے ڈھیر سب کچھ پچھلی حکومت کا ہی کیا دھرا ہے تو ’’ہم‘‘ نے ڈھائی سال میں کیا کیا ہے۔
بات تو سچ ہے ، مگر بات ہے رسوائی کی