اعتماد کا کچھ تو بھرم رکھا جائے
ریاستوں کے اندرونی اور بیرونی معاملات کم نہیں ہوا کرتے لیکن ہمارے مسائل کہیں زیادہ ہیں۔ ہمارے ایک طرف تو ہمسایہ ملک ہندوستان ہے جس کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی مسلسل ہوتی ہے۔ بھارت کے نئے آرمی چیف نے بھی عہدہ سنبھالتے ہی سابقہ فوجی سربراہ جنرل بپن روات کی طرح ڈینگیں مارنے کا کام شروع کر دیا ہے ہے۔ بھارت کے لئے پاکستان کا وجود شروع سے ناقابلِ برداشت رہا ہے۔ پاکستان کو مٹانے کے خواب دیکھتے دیکھتے بھارتی حکمرانوں کی منافقت اور انسانی جارحیت سے بھارت کی اپنی سالمیت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ دوسری طرف افغانستان سے شرپسندوں کی دراندازی سے بلوچستان میں دہشتگردی سے ہم بڑا افسوس ناک بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اب تک بھی جانی اور مالی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس انتہائی افسوس ناک اور سنگین صورتحال کا سامنا ہم اب سے نہیں بلکہ برسوں سے کر رہے ہیں۔ اطراف سے دشمنوں کے شدید خطرات لاحق ہونے کے باوجود بھی بد قسمتی سے ہمیں اپنے ملک کے سیاسی شعور میں سنجیدگی نام کو بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ ایک طرف تو بھوک اور غربت سے لوگ اپنے بچوں سمیت خودکشی کرتے رہے اور دوسری طرف حکمرانوں کے محل تعمیر ہوتے رہے عوام کے پیسوں سے حکمران خاندانوں کی عیاشیوں کے ریکارڈ قائم ہوتے رہے۔ شعبدے بازیاں، مکر وفریب اور جھوٹی تسلیاں دے دے کر عوام کا خون نچوڑا گیا۔ تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی اور ملک کے کروڑوں عام آدمیوں کی خوش حالی کے بلند دعوے کیے گئے۔ کرپشن میں ملوث کرپٹ لوگوں کے خلاف نیب کی کاروائیوں کو تیز کیا گیا لیکن ان کاروائیوں کے تسلی بخش نتائج پھر بھی سامنے نہ آسکے۔ ان کاروائیوں کے اخراجات بھی کم تو نہیں ہوئے ہوں گے۔ اپنی کاروائیوں سے نیب نے 178 ارب وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے۔ جو کاروائیاں کی گئیں ان کے اخراجات کی لاگت بھی منطر عام پر آنی چاہیئے تا کہ قوم کو اصل آمدنی کا درست اندازہ ہو۔ دوسری طرف ایف بی آر کو ٹیکس وصولیوں میں 330 ارب کا نقصان ہوا ہے۔ ایک تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ آخر اب کیا ہے۔ عام آدمی کے مسائل تو اس کے علاوہ ہیں۔ دالیں گھی چینی آٹا سبزیاں یہ روز مرہ کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کر کے موجودہ حکومت نے عام شہریوں کی زندگی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ لوگ پہلے سے جس حال میں زندگی جیسے کیسے گزار رہے تھے اب ان سے کھانے کے نوالے بھی چھینے جا رہے ہیں۔ ہمارا زیادہ انحصار زراعت پر ہے یہاں اجناس اگتا ہے فصلیں کاشت ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی اور بے بسی دیکھیں کہ ملک کے عام لوگوں کے آٹا چینی دالیں گھی خریدنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ حکومت مکانات نہیں بنا سکتی تو نہ بنائے لیکن کھانے پینے کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ کاروباری حالات ایسے ہیں کہ دکانوں کے کرائے بھی ادا نہیں ہو پا رہے۔ چھوٹے دکانداروں کے لئے ملازمین رکھنے کی گنجائش بھی اب نہیں رہی۔ گیس بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں بھی حکومت نے عوام کا کچھ احساس نہیں رکھا۔ پہلے تو ہم پر کرپٹ لوگ مسلط رہے ان کی جھوٹی تسلیوں سے ہم بیوقوف بنتے رہے اور اب وزیراعظم عمران خان ڈیڑھ سال حکومت کرنے کے بعد ہمیں اگلے سال یعنی 2020 میں ریلیف دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ آخر ہمیں کس قسم کا ریلیف دیں گے اگر کہا جائے کہ بجلی گیس اور پٹرول سستا کریں گے تو اس سے بڑی جھوٹی تسلی اور بھلا کیا ہوسکتی ہے۔ جو حکومت آٹے گھی چینی دالوں اور سبزیوں کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر پا رہی اس حکومت سے ہم ریلیف کی بھلا کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج کے انڈیکس میں اضافہ ہو یا ملک میں روپے کی قدر مستحکم ہو اس سے عام آدمی کو کیا سروکار؟بجلی کا کمرشل یونٹ ایک بھی چل جائے تو اس کا بل بھی 350 روپے خواہ مخواہ آجاتا ہے یعنی کہ بجلی کا استعمال اگر نہ بھی ہو تب بھی بل کی ادائیگی عام آدمی کو سینکڑوں میں کرنا پڑتی ہے۔ اس سے بڑا عام آدمی کے ساتھ اور ظلم کیا ہوگا؟ مزدور اپنے بچوں کی کفالت نہیں کر پا رہے عام لوگوں میں خود کشی کے واقعات اب بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے ہو نے لگے ہیں۔ لیکن حکومت پہ برائے نام بھی اس کا کوئی اثر نہیں محسوس ہو رہا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ملک کے کروڑوں عام لوگ کسی دیوار کے آگے اپنا رونا رو رہے ہیں۔ یہ بجا کہ وزیراعظم عمران خان کو حکومت کا تجربہ اتنا نہیں تھا جتنا ہونا چاہیئے تھا لیکن قوم نے تو ان کا انتخاب سابقہ حکمرانوں سے تنگ آکر ہی کیا تھا۔ اگر سابقہ حکمران عوام دوست ہوتے تو لوگ پھر عمران خان سے بہتری کی توقع ہی کیوں کرتے۔ لیکن اب اعتماد کر ہی بیٹھے ہیں تو اس اعتماد کا کچھ تو لحاظ حکومت کو ہونا چاہیئے۔ مزدور اور سفید پوش طبقے کے گھرانوں میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔ افریکہ کے قحط زدہ علاقوں کے تباہ کن مناظر اب اس سر سبز وشاداب اور نعمتوں سے مالا مال ریاست میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ وزیراعظم کی سنجیدگی کو بھی ہم اب تک کافی وقت دے چکے۔ مان لیتے ہیں کہ ہمارے نصیب میں پہلے تو غیر سنجیدہ اور مفاد پرست لوگ تھے ان کے بعد ہمارا سامنا اگر کسی سنجیدہ حکمران سے ہوا ہے تو اب ہم ان کے تجربات کے رحم و کرم پر ہیں۔ جب تک ان کو مہنگائی کم کرنے کا کچھ تجربہ ہوگا تب تک پتہ نہیں کتنے ہی لاکھوں لوگ بھوک اور افلاس کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ تعلیم کے المیے،صحت صفائی، علاج معالجے کی محرومیت، کمزور عدالتی نظام، گیس کا بحران، کاروبار کے مندے ، ہر سال دکانوں کے کرایوں میں دس فیصد اضافے کا بوجھ جس سے لوگ دکانیں چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ تمام ازیتیں اور اسانی تذلیل کے ان گنت اسباب پہلے ہی کم نہیں تھے ڈیڑھ سال کے عرصے میں ان تکلیفوں میں کمی کے بجائے بدستور اضافہ ہو رہا ہے اوپر سے روز مرہ کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کرنے کے بعد وزیراعظم آنے والے وقت میں ہمیں جس عوامی ریلیف دینے کی باتیں کر رہے ہیں؟ ضرورت جس چیز کی عوام کو اب ہے اسے بعد میں دینے کے بجائے اگر اب دے دیا جائے تو حکومت پر اعتماد کرنے والوں کا بھی کچھ بھرم رہ جائے گا؟