جمعرات‘ 20؍ جمادی الاول 1441ھ ‘ 16؍ جنوری2020 ء
سخت سردی میں مدارس اور مساجد کے دروازے بے سہارا افراد کے لیے کھول دئیے جائیں۔ علما کونسل
اسلام تو درس ہی ایک دوسرے کی مدد کا دیتا ہے۔ اچھے کاموں میں تو ایک دوسرے کی مدد کا اجر بھی بہت ہے۔ حکم بھی یہی ہے کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کردیں۔ اب پاکستان علما کونسل نے ملک بھر کی مساجد اور مدارس سے جو اپیل کی ہے اس پر عمل ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہو جائے تو اس وقت موسمی بے رحمی کی وجہ سے جو ہزاروں افراد مصائب اور آلام کا شکار ہیں ان کو آرام مل سکتا ہے۔ اس میں کوئی ہرج بھی نہیںہے۔ متاثرین نے کونسا مساجد اور مدارس پر قبضہ کر لینا ہے یا وہاں سے سامان چرا لینا ہے۔ ہمارے ہاں تقدس کے نام پر مساجد کو بلاوجہ بلاک کیا جاتا ہے جبکہ مساجد خدا کا گھر ہونے کے ساتھ انسانوں کے درمیان باہمی معاملات نمٹانے کا مرکز بھی رہی ہیں۔ اسلام کے اولین ادوار میں یہ مسلمانوں کے ملی و سماجی معاملات کا مرکز ہوتی تھیں۔ برصغیر میں اسے صرف نماز کی جگہ بنا دیا گیا۔ مدارس کا بھی یہی حال ہے وہاں کسی اور کی آمدورفت کا تصور نہیں۔ اگر باقی باتوں سے قطع نظر ہم مساجد اور مدارس کو اس وقت مخلوق خدا کی مدد کا مرکز بنا دیں تو زیادہ ثواب ہو گا۔ بارش برفباری اور سردی سے متاثرہ افراد کو یہاں پناہ مل جائے گی۔ مرد خواتین بوڑھے بچے محفوظ ہو جائیں گے۔ خانہ خدا اور مدارس کے منتظمین حکومت یا صاحب حیثیت لوگوں کے ساتھ مل کر ان کی خوراک لباس اور بستروں کا انتظام کر سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی چند سال پہلے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جب وہاں سیلاب نے تباہی مچائی تو مساجد کو متاثرین کے لیے کھول دیا گیا جہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کو کھانا لباس اور پناہ دی گئی۔ ہونا بھی یہی چاہئے کہ مساجد اللہ کا گھر ہیں۔ انسانیت اس کا کنبہ ہے تو پھر مصائب سے بچانے کے لیے ان دکھی لوگوں کو اللہ کے گھر سے زیادہ محفوظ پناہ گاہ کہاں مل سکتی ہے۔
٭٭٭٭
نواز شریف واپس آئے تو جیل میں دیگر قیدیوں جیسا سلوک ہو گا۔ شہزاد اکبر
’’میرا پیا گھر آیا‘‘ والی قوالی یا صوفیانہ کلام تو سب نے سنا ہو گا۔ اب دو نئے قوالوں نے اسے جدید انداز سے بڑے والہانہ انداز میں گایا ہے جس میں وہ بڑی خوبصورتی سے سماں باندھتے ہوئے کہتے ہیں۔
وہ آتے ہیں وہ آئیں گے
لو وہ آ گئے میرا پیا گھر آیا
لگتا ہے شہزاداکبر بھی اسی سُر میں یہ کلام سنا رہے ہیں۔ کس نے آنا کب آنا اور کہاں آنا ہے۔ اگر آنا ہی تھا تو گئے ہی کیوں تھے۔ اچھا علاج تو یہاں بھی دستیاب تھا۔ حکومت بھی اتنی بھولی نہیں کہ ڈاکٹری رپورٹوں پر کسی قیدی کو رہا کر کے عدالتی ضمانت پر ہی سہی باہر جانے دے اور پھر اس کے واپس آنے کا انتظار بھی کرے۔ کیا مشرف واپس آئے ہیں جو میاں جی کے واپس آنے کی راہ دیکھی جا رہی ہے۔ لگتا ہے شہزادہاکبر بھی واقعی شہزادے ہیں بلکہ ان کو تو ’’لاہوری شہزادہ‘‘ کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ کہتے ہیں نواز شریف کے ساتھ دیگر قیدیوں والا سلوک ہو گا۔ بھلا کیا اب انہیں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر گلے میں وزنی طوق ڈال کر کولہو پیسنے پر لگایا جائے گا یا بیرک میں روزانہ اڑھائی من گندم چکی میں پیسنے کا کہا جائے گا یا کسی کال کوٹھری یا اندھے کنویں میں ڈالا جائے گا۔ انار کلی کی طرح انہیں دیوار میں تو چنوایا جا نہیں سکتا۔ ایسے خیال کو صرف خام خیالی ہی کہتے ہیں۔ شہزاد اکبرصاحب شاید بھول رہے ہیں کہ میاں جی عدالت کی ضمانت کے بعد حکومت کی مرضی سے باہر گئے ہیں جہاں وہ چہل قدمی، ہوٹلنگ اور علاج میں مصروف ہیں۔ واپسی کب ہو گی یہ وہی جانتے ہیں یا ان کے ڈاکٹر۔
٭٭٭٭٭
بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ دورہ پاکستان پر راضی
چلو جی شکر ہے کہ ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرے‘‘ بنگلہ دیش والوں کو یقین آ گیا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ وہاں کسی غیر ملکی کو کوئی خطرہ نہیں۔ ویسے کیا شرم کی بات نہیں کہ جو ملک خود بدامنی کا شکار ہی نہیں اعلیٰ شہکار بھی ہے۔ کسی دوسرے ملک پر بدامنی کا الزام لگائے۔ اب لگتا ہے دبئی میں پاکستان اور بنگلہ دیش کرکٹ کے اعلیٰ حکام کی ملاقات رنگ لائی ہے اور بنگلہ دیش والوں کے خدشات دور ہو گئے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بھارتی لابی کے زیر اثر بنگلہ دیش والے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی بجائے مین میخ نکالنے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ ہمارے ہی وجود کا حصہ تھے اور ہم ان کے وجود کا حصہ مگر پھر ہم ایک رہ نہ سکے۔ دونوں اگر چاہیں تو بھائی بھائی بن کر مل تو سکتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ہرممکن کوشش ہمیشہ اچھے تعلقات کی رہی مگر افسوس بنگلہ دیش والوں کی عقل اور آنکھوں سے بھارتی پٹی نہیں اترتی۔ ویسے بھی …؎
نہ آتے تم اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
کم از کم اس طرح لوگوں کے دل تو خراب نہ کرتے۔ بہرحال اب اگر بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے یہی فیصلہ کرنا تھا تو پھر یہ ناں ناں کا دورہ انہیں کیوں پڑتا رہتا تھا۔ یہ تو وہی دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والی حرکت ہے۔ پاکستانی کل بھی بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کو ’’چشم روشن دلِ ما شاد‘‘ کہہ رہے تھے۔ آج بھی کہہ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
اداکارائوں کو وزیر اعظم اور وزیر سے زیادہ پروٹوکول دینا چاہئے۔ میرا
اس کی وجہ بھی انہوں نے یہ بتائی ہے کہ اداکار بین الاقوامی سطح پر ملکی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب ذرا کوئی ان سے پوچھے بی بی ہماری اداکارائیں اندرون ملک فلم اور سٹیج پر جس قسم کی ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں اس کے بعد انہیں پروٹوکول سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے انہوں نے ازخود بھی گن مین رکھے ہوتے ہیں جو انہیں عوام الناس کی جذباتی وابستگی یا کیفیت سے بچانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ماضی کی اداکارائیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ کیونکہ ان میں اس طرح اپنی ثقافت نمایاں کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا جس کا نتیجہ بے ہودہ ہوٹنگ کی شکل میں ملتا ہو۔ اب جس طرح اداکارہ میرا نے پروٹوکول طلب کیا ہے اس سے تو کہیں وزرا خفا نہ ہو جائیں کہ بی بی نے انہیں اور خود کو ایک ہی مقام پر کیوں رکھا ہے۔ گرچہ یہ بھی ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ کیا ہمارے سیاستدان بھی اب اداکارائوں والا کام نہیں کر رہے کہ فلمی انداز میں ان کے نعرے لگاتے فائرنگ اور آتش بازی کرتے جلوس نکلتے ہیں جلسے ہوتے ہیں۔ تقریریں دیکھ لیں تو ساری پنجابی فلموں کے مکالموں کی ہو بہو نقل ہوتی ہیں۔ ادب و احترام کا زمانہ کب کا گزر گیا۔ اب تو مولا جٹ اور نوری نت والے مکالمے تمام سیاستدان بولتے ہوئے عوام کا دل بہلاتے ہیں اور واہ واہ کے نعرے سن کر خوش ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭