پاکستان، امریکہ اور ایران

حال ہی میں امریکہ کے جدید ڈرون میزائل نے عراق میں ہر دلعزیز ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا۔ جس کا ایران اور عراق میں شدید ردعمل ہوا۔ ایران نے بھی عراق امریکہ کے فوجی اڈے پر میزائل پھینکے اور جذبات میں میزائل پھینک کر یوکرائن کا مسافر طیارہ بھی مار گرایا۔ جس میں ایرانی مسافر بھی سوار تھے۔ اس المناک حادثے سے ایرانی حکومت کے فوجی اور حکومتی عہدیداران بھی بے حد مغموم اور پریشان ہو گئے اور اپنی نادانستہ غلطی کو تسلیم کر لیا۔ حتیٰ کہ ایک فوجی کمانڈر نے تو اس حد تک تاسف کا اظہار کیا کہ اس غلطی پر اس کا دل خودکشی پر آمادہ ہے۔ ان حالات میں دکھائی دے رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور ایران کی براہ راست جنگ چھڑ جائے گی۔ ظاہر ہے ایسی کسی بھی صورت میں پاکستان کو بالواسطہ طور پر تیل مہنگا ہونے سے بے حد نقصان ہوتا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اس واقعہ پر بات چیت کی۔ مگر پاکستان کی فوجی کمان اور وزارت خارجہ نے اس محاذ آرائی کی دو انتہائوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی بجائے دونوں فریقوں کو صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا اور واضح کیا کہ پاکستان نہ تو اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ ہے اور نہ ہی ایران کے ساتھ ، دونوں ملکوں کے ساتھ پاکستان کے فوجی اور سفارتی تعلقات عرصہ دراز سے ہیں لہٰذا اس نازک موڑ پر جنگ اور کسی ایک فریق کی حمایت سے گریز کا انتخاب پاکستان نے بڑی دانشمندی سے کیا۔ حالانکہ اکثر جذباتی دانشور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اشتعال دلا رہے تھے کہ پاکستان کھل کر ایران کے حق میں خارجہ پالیسی اختیار کرے۔ مگر چونکہ مشرق وسطی میں ایران اور خلیجی ممالک کے مابین تعلقات اسقدر پیچیدہ ہیں اور ہمارے ملک میں بھی دونوں مسالک کے لوگ رہتے ہیں۔ بڑی مشکل سے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ وہ ٹرمپ جو پاکستان کے سخت خلاف تھا۔ آج عمران خان کو اپنا ذاتی دوست قرار دیتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایران نے کشمیر کے مسئلے پر کھل کر پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے مگر پاکستان اپنے جیوسٹریٹیجک پوزیشن کی وجہ سے بہت سے معاملات میں واضح پالیسی اختیار نہیں کر سکتا ہے۔ افغانستان اور ہندوستان ہر وقت پاکستان کو دنیا میں سفارتی طور پر تنہا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہماری معاشی مشکلات ایسی ہیں کہ ہمیں بین الاقوامی اداروں اور خلیجی ممالک سے ہر چند سال بعد معاشی پیکج کی ضرورت رہتی ہے لہٰذا حقائق کو مدنظر رکھ ہی ہمیں ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے ہونگے۔ لہٰذا اس چیز کو کوئی حکومت اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی کمزوری سے منسوب نہ کرے۔ دنیا میں مسائل اور بحران میں پاکستان کا فیصلہ کرنے کا ٹریک ریکارڈ ہمیشہ اچھا رہا ہے اور سخت رسی پر چل کر ہمیشہ توازن کا مظاہرہ کیا ہے سوائے حالیہ یوٹرن کے کہ ہم نے سعودی عرب کے دبائو پر آخری وقت میں کوالالمپور سِمٹ میں شرکت نہیں کی۔ ہر کوئی ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہوتا ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے لہٰذا ضروری ہے کہ ہمارے دفتر خارجہ کو ماضی کے ڈپلومیٹس آغا شاہی‘ صاحبزادہ یعقوب علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی اسلامی دنیا کے ساتھ یکساں برتائو اور اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کو برقرار رکھ کے کس طرح دنیا میں آبرومندانہ طور پر زندہ رہا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے سرد جنگ کے عروج کے دنوں میں بھی اپنے قومی مفادات کو اہمیت دی۔ کوریا کی جنگ کے دنوں میں وزیراعظم لیاقت علی خاں نے امریکہ کا بے حد کامیاب دورہ کیا مگر پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں تھا جنہوں نے کوریا میں امریکہ کی حمایت کے لئے اپنے فوجی دستے بھیجے، چند سال پیشتر سعودی عرب کی شدید خواہش کے باوجود نواز شریف حکومت نے جنوبی یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ میں پاکستانی فوج نہیں بھیجی، کیونکہ جنوبی یمن کو بالواسطہ طور پر ایران کی حمایت حاصل تھی، لہٰذا پاکستان کی یہ کبھی بھی پالیسی نہیں رہی کہ وہ کہیں بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر ایران کے مفادات کو نقصان پہنچائے۔ حالانکہ ہمیں بلوچستان میں ایران سے بہت سی شکایت ہیں۔ کلبھوشن بھی ایران کے راستے پاکستان آیا تھا۔ ایران اور بھارت کے آپس میں گہرے تجارتی تعلقات ہیں چاہ بہار کی بندرگاہ پر ہندوستان کی بہت بڑی سرمایہ کاری ہے، کیونکہ ہندوستان نہیں چاہتا کہ چین اور پاکستان گوادر کی بندرگاہ سے مشترکہ تجارتی فوائد سمیٹ سکیں۔1955ء میں پاکستان نے غیر جانبدار ممالک (NAM) کی کانفرنس جو بنڈونگ میں ہوئی اس میں شرکت کی اور پہلی مرتبہ چین سے براہ راست رابطہ قائم کیا۔ پاکستان کی شاندار تاریخ ہے کہ اس نے امریکی دبائو کے باوجود الجزائر فلسطین اور تیونس کے عوام کے حق خوداختیاری کی حمایت کی۔ تیونس کے دو قوم پرست رہنما فرحت عباس اور حسیب بورقیہ پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے۔ الجزائر کے عظیم حریت پسند رہنما احمد بن بیلا کو پاکستان کا سفارتی پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔ امریکہ نے جب ہندوستان سے فوجی معاونت شروع کی تو اس وقت پاکستان نے چین کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے۔ یہ پاکستان کا انتہائی جرأت مندانہ اقدام تھا کیونکہ امریکہ اس وقت چین کو اپنا دشمن نمبر1 تصور کرتا تھا۔ صدر ایوب نے 1965ء میں انڈوپاک جنگ کے بعد امریکہ کا دورہ کیا اور دوٹوک انداز میں اس وقت کے امریکی صدر جانسن کو بتا دیا کہ ہم چین سے تعلق نہیں توڑ سکتے۔ چین سے قطع نظر پاکستان نے مشرق وسطیٰ کے مسائل پر بھی ماضی میں ایک فعال پالیسی اختیار کی۔ پاکستان نے تمام خلیجی ممالک حتیٰ کے ایران کے فوجیوں کو بھی اپنی اکیڈمیوں میں جدید فوجی تربیت سے ہمکنار کیا۔ اکتوبر 1973ء میں اسرائیل کے ساتھ جنگ میں پاکستانی ہوا بازوں نے شام کی ائیر فورس کی معاونت کی۔ ایک مرحلے پر جب دمشق کو اسرائیلی فوج نے دھمکی دی تو ذوالفقار علی بھٹو نے حافظ الاسد کو پیشکش کی کہ وہ شام کے دارالحکومت کی حفاظت کے لئے پاکستانی فوج کا ایک دستہ بھیجنے پر تیار ہیں۔
فلسطینی عوام کی نمائندہ جماعت پی ایل او نے اپنی پہلی بین الاقوامی قبولیت اپریل 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں حاصل کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی الجیریا اور ایران کے ساتھ پاکستان تیسرا ملک تھا جس نے پی ایل او کو فوجی تعاون پیش کیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے یہ حیثیت اور صورت صرف مشرق وسطیٰ میں ہی اختیار نہیں کی تھی بلکہ افریقہ ایشیاء اور یورپ کے ان ممالک کی بھی حمایت کی جو جبر و استحصال کی زد میں آئے۔ ماضی کا یہ منظر نامہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری حکومت کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ پاکستان کو ہمیشہ اصولی کردار کے ساتھ جانا جاتا ہے۔ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر جنوبی افریقہ اور زمبابوے افریقی نیشنل یونین کی جدوجہد کے دور میں حمایت کی پاکستان نے موجودہ حالت میں امریکہ‘ ایران اور خلیجی ممالک کے ساتھ متوازن پالیسی اختیار کرنے کا صائب فیصلہ کیا۔ ہمیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرنا ہے تا ہم ہمیں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے ایران پر غیر ضروری اقتصادی پابندیوں کی حمایت نہیں کرنا ہو گی۔ مگر چونکہ امریکہ کی دنیا میں اجارہ داری ہے لہٰذا طاقتور ہونے کی وجہ سے وہ اپنے سٹریٹجک مقاصد او ر ہتھیاروں کو بیچنے کی خاطر دنیا کے مختلف خطوں میں جنگ کی آگ بھڑکائے رکھتا ہے اگر خلیجی ممالک امریکہ کی ایران کے ساتھ جنگ میں اس کے فوجی اخراجات نہیں اُٹھائیں گے تو ٹرمپ کبھی بھی ایران کے ساتھ براہ راست جنگ نہیں کرے گا۔