فیض کی نظم بھارت کا نیا قومی ترانہ

کلام فیض کا جادو سرحد پار بھارت میں سرچڑھ کر بول رہا ہے ان کی نظم کو مظاہرین نے قومی ترانہ بنا دیا ہے ۔ مودی اور ہندو توا کا جنونی نظریہ فیض احمد فیض کی معصوم، لیکن بلند آہنگ سے پڑھی جانے والی نظم کی وجہ سے تھر تھر کانپ رہا ہے ۔ ، جنونی قاتل جتھے کے سفاک سینوں میں فیض کا کلام گولی کی مانند لگا ہے، عدل وانصاف کے سنہری خواب دکھانے والے انقلابی پیغام سے موذی تھرتھر کانپ رہا ہے، سحرانگیز ترانوں کی آواز پگھلے سیسے کی مانند فسطائی کانوں میں جانے سے بلبلاہٹ دیدنی ہے، بند دماغ عوامی آزادی کے نغمے گاتی زبانیں بند کرنے پر تل گئے ہیں۔
فیض کا فیض اس کے کلام کی صورت آمریت کے موسموں میں بہار بن کر حقوق کے برگ وگلاب کھلارہا ہے، ذہنوں کی خشک کھیتی میں خوابوں کی فصل لہلہارہا ہے۔ بیمار ذہن حکمرانوں کے لئے یہ ’بغاوت‘ کا پیغام ہے جو لاشوں پر سجے ان کے بدبودار اقتدار کے دھڑن تختے کا باعث گردانا جارہا ہے۔ ظلم سے سمجھوتہ نہ کرنے کی جرات ارمانوں کے قاتل کو قبول نہیں۔
نارووال پنجاب کے تتلے جٹ خاندان میں کالاقادر علاقے میں فیض نے آنکھ کھولی تھی، وہ فیض نگر بن گیا۔ آج بھارت بھی فیض نگر بن گیا ہے۔ ان کے والد چوہدری سلطان احمد چوٹی کے قانون دان مانے جاتے تھے جنہوں نے برطانوی حکومت میں کام کیا۔ انہوں نے امپیریل افغانستان کے امیر عبدالرحمان خان کی سوانح عمری بھی تحریر کی تھی۔ان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے ضلعی عدالتوں میں بھی کام کیا۔ ان دنوں انہیں گائوں کے چوہدری کا پڑھالکھا بیٹا کہہ کر پکارا جاتا تھا۔پھر ایک دن وہ لاپتہ ہوگئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ افغانستان چلے گئے ہیں جہاں امیر افغانستان کی عدالت میں انہیں ذمہ داری مل گئی ہے۔ وہ میر منشی، پھر چیف سیکریٹری افغانستان بن گئے۔ ان کی متعدد خوبصورت افغان خواتین سے شادیاں ہوئیں۔ ان کے ہاں بیٹیاں تو پیدا ہوئیں لیکن کوئی بیٹا نہیں تھا۔ پھر ایک دن ان کے بارے میں افواہ پھیل گئی کہ وہ برطانوی جاسوس ہیں۔ ان کے انکار اور تردید کے باوجود امیر کے ذہن میں شکوک پیدا ہوگئے۔ اس سے قبل کے امیر کوئی اقدام کرتا چوہدری سلطان احمد پھر لاپتہ ہوگئے اور بمبئی پہنچ گئے۔ انہیں اردو، پنجابی، فارسی، عربی، انگریزی، پشتو اور روسی زبان میں روانی حاصل تھی۔ برطانیہ میں کیمرج یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی ادب میں کیا۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں بار میں آنے کی اجازت مل گئی۔ وہ خان بہادر بھی کہلائے۔ سیالکوٹ میں وکالت شروع کی تو علامہ اقبال بھی ان کے دوستوں میں شامل ہوئے۔ چوہدری سلطان احمد کی پھر ایک پنجابی خاتون سے شادی ہوئی۔ ان میں سے چار صاحبزادے ہوئے جن میں چوہدری طفیل احمد چوہدری فیض احمد، چوہدری عنایت احمد اور چوہدری بشیر احمد شامل تھے۔
اس عرصہ میں امیر افغانستان پر بھی حقیقت کھل گئی کہ ان پر الزام غلط تھا اور اب وہ خان بہادر چوہدری سلطان احمد بن گئے ہیں۔ اس نے چوہدری سلطان کی بیگمات اور صاحبزادیوں کو لاہور بھجوانے کا فیصلہ کیا اور فیروز پور روڈ پر گھر میں وہ سب آگئے۔ ان کی اہلیہ فاطمہ سلطان المعروف ’بی بی جی‘ نے کمال ظرف دکھایا کہ اپنے شوہر کے اس خاندان کی بڑی اچھی طرح دیکھ بھال کی۔ شوہر کی وفات کے بعد گھر کی سربراہی کرتے ہوئے انہوں نے بڑی سلیقہ مندی سے پورے گھر کا خیال رکھا۔
فیض ایک ایسے گھر میں پروان چڑھے جہاں ان کی سوتیلی بہنیں فارسی بولتی تھیں۔ وہ عربی، انگریزی، اردو، پنجابی اور فارسی بولتے تھے۔ فیض کے والد نے اپنے گاوں کالا قادر میں ایک چھوٹی لیکن بڑی خوبصورت مسجد تعمیر کرائی تھی۔ بیروت میں جلاوطنی کے زمانے میں فیض نے آقاکریمؐ کی مدحت میں نعت لکھ کر بھجوائی۔ فارسی میں اس ہدیہ نعت کو بہت سارے لوگ بہترین نظم قرار دیتے ہیں جو مسجد کے کتبے پر کندہ ہے۔ علم وادب سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان روایتی اسلام کی اقدار کا پابند تھا لیکن فیض جدت پسندی اور ترقی پسندی کی طرف مائل رہے۔ آج بھی ان کے کلام کو ’سیکولر‘ سمجھا جاتا ہے جو ان کے پیغام کی گہرائی سے آگاہ اور علم رکھنے والوں کے لئے باعث حیرت ہے۔
’مارکسسٹ‘ کی پہچان رکھنے والے فیض نے ترقی پسندی اور روشن خیالی کی اقدار کو اوڑھنا بچھونا بنایاتھا۔ کسے معلوم تھا کہ سیکولر شناخت اور آئین رکھنے والے بھارت میں ’ترقی پسند‘ خیالات بھی جرم ٹھہریں گے۔ فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کے ساتھ بھی یہی کچھ آج ہندوستان میں ہورہا ہے۔ فیض آج حیات ہوتے تو ان پر کیا گزرتی کہ ’سیکولر بھارت‘ کا لبادہ اوڑھے حکومت میں ہندتوا کی انتہا پسندی کی وحشت کا یہ عالم ہے کہ ان کی نظم ’ہندو دھرم‘ کے خلاف قرار دے دی گئی۔ جہاں یہ اقدام خود بھارت کے سیکولرازم کے چہرے پر سیاہی پھیر گیا ہے،وہیں قرآن کے پیغام سے جڑے کلام اور فیض کی اپنی اسلام سے گہری وابستگی کی دلیل مبرہن بن کر ابھرا ہے۔ بھارت میں ’’مجرم‘‘ ٹھہرائی گئی ’’ہم دیکھیں گے‘‘ نظم میں فیض نے کئی تعبیرات قرآن کریم سے مستعار لی ہیں۔
متوازن اسلامی فکر وسوچ کے حامل لاہور میں گوشہ نشین بزرگ دانشور افضل رحمن فرماتے ہیں جناب فیض نے اپنی شاعری میں متعدد تعبیرات قرآن کریم سے مستعار لی ہیں۔ ’’وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے‘‘، کا حوالہ قیامت کے دن، یوم جزا کے روز سے لیاگیا ہے۔ ’’کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے‘‘ کا پیغام قرآن کریم کے ’’وتکون الجبال کالعھن المنفوش‘‘ کے ابدی الفاظ سے لیاگیا ہے۔ ’’دھرتی دھڑ دھڑ، دھڑکے گی‘‘ قرآن کریم کے ان الفاظ کا ترجمہ ہے جو 99 ویں سورہ الزلزال میں ’’اذا زلزلت الارض زلزالھا‘‘ کی صورت درج ہیں۔ ’’جو لوح ازل میں لکھا ہے‘‘ وہی مضمون ہے جو ’’کان ذالک فی الکتاب مسطورا‘‘ کی صورت بیان ہوا ہے۔ ’’مسند پہ بٹھائے جائیں گے‘‘ کا مفہوم اس خوشخبری سے لیاگیا ہے جس میں اللہ کریم قرآن حکیم میں اپنے نیک بندوں کے استقبال اور عزت افزائی کا اعلان ’’علی الارائک متکوون‘‘ سے فرماتا ہے یعنی اللہ کریم کے نیک بندے کس شان وکمال اور بے مثال میزبانی میں تکئے لگائے رونق افروز ہوں گے۔ ’’اور نام رہے گا اللہ کا‘‘ کا بیان وہ ازلی وابدی حقیقت ہے جس کا بیان سورۃ رحمن میں ’’ویبقی وجہ ربک ذوالجلال ولاکرام‘‘ کے الفاظ سے ہوا ہے جس کا معنی ہے کہ ’’اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی، فضل وکرم والی ذات باقی رہے گی۔‘‘
’’ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘، یہ اساسی جملہ بھی قرآن کریم کے اسلوب کی پیروی ہے۔ قرآن کریم میں بار بار اس طرح خطاب کیا جاتا ہے، ’’جب تم دیکھو گے‘‘ اور سورہ تکاثر میں تو ایک جگہ ’’لترون الجحیم, ثم لترونھا عین الیقین‘‘ کا انداز اپنایاگیا۔ (جاری)