سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد آمد ہے۔ ان کی آمد سے پہلے دارالحکومت میں سعودی حکام خاصی تعداد میں صلاح مشوروں کے لئے موجود ہیں۔ سعودی وزیر توانائی حال ہی میں پاکستان آئے اور گوادر گئے جہاں سعودی عرب آئیل ریفائنری قائم کرے گا۔ یہ ایک بڑا منصوبہ ہے جسے سعودی عرب فنانس کرے گا۔ اس منصوبے کے قیام کے لئے سعودی عرب نے گوادر کا انتخاب کیا ہے جس کی بڑی سٹریٹیجک اہمیت ہے۔ گوادر پورٹ کے قیام سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سمندری فاصلہ کم ہوگا۔ سعودی عرب نہ صرف آئیل ریفائنری قائم کرے گا بلکہ بلوچستان میں جو معدنیات سے بھرا ہوا علاقہ ہے وہ معدنیات کی تلاش میں بھی سرمایہ کاری کرے گا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسلام اور دین کا رشتہ تو تھا دونوں ملکوں میں اب تعلقات کو مستحکم بنانے کے لئے نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ ستر کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی تو بھٹو نے اپریل 1974ء میں پاکستان میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی اور اس کی میزبانی کی۔ اس سربراہ کانفرنس میں مرحوم شاہ فیصل نے سعودی عرب کی نمائندگی کی۔ اس کانفرنس کے بعد پاکستان کی غیرہنرمند اور ہنرمند افرادی قوت کو مشرق وسطیٰ کے تیل والے ملکوں میں جہاں انفراسٹرکچر کی بڑے پیمانے پر تعمیر ہو رہی تھی جانے کا موقع ملا۔ اس وقت سے اب تک پاکستانی لیبر سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ عراق‘ لیبیا‘ بحرین‘ قطر اور دوسرے ملکوں میں مسلسل روزگار کے لئے جا رہی ہے۔ سعودی عرب میں کم و بیش 20 لاکھ پاکستانی اس وقت کام کر رہے ہیں جو اربوں ڈالر پاکستان کو بھیج رہے ہیں۔ شاہ فیصل کے بعد بھی سعودی قیادت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی۔ مختلف مشکلات اور بحرانوں سے سعودی عرب نے پاکستان کو نکلنے میں مدد دی۔حال ہی میں ہمارے وزیراعظم اور آرمی چیف کے سعودی عرب کے دوروں اور ان کے نتیجے میں پاکستان کو تین ارب ڈالر کی فراہمی اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیتا ہے۔
بات ہو رہی تھی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی جو فروری کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے۔ اس دورے کو کامیاب بنانے کے لئے دونوں ملکوں میں صلاح مشورہ جاری ہے۔ تبوک کے گورنر فہد سلطان بن عبدالعزیز نے کل ہی صدر‘ وزیراعظم اور آرمی چیف سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ بھی ولی عہد کے دورہ کے سلسلہ میں صلاح مشورہ کی ایک کڑی ہے۔
دو روز قبل راقم کو سعودی عرب کے ایک تھینک ٹینک" "Rasanah کے سربراہ پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی عواض عسیری کا فون آیا۔ ڈاکٹر علی عواض عسیری آٹھ برس تک پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر رہے۔ وہ جنرل مشرف کے دور میں جو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کی پارٹنر شپ کا دور تھا اسلام آباد میں سعودی عرب کے سفیر تھے وہ آٹھ برس تک سعودی عرب کے سفیر رہے۔ ان دنوں وہ Rasanah{{" " کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ تھینک ٹینک ایران سٹڈیز‘یعنی ایران کے مطالعہ کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر علی عواض عسیری پاکستان کے چولستان میں سعودی عرب کے سفیر مقرر ہوئے تھے جہاں سے وہ ریٹائر ہوئے اور اب وہ Rasanah" " کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر عسیری ایک تجریہ کار اور منجھے ہوئے سفارت کار ہیں۔ انہوں نے فون کیا تو مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ ڈاکٹر عسیری نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ہیں اور ان کے ساتھ ان کے دوسرے رفقاء بھی ہیں۔ پیر کے روز علی عواض عسیری اور ان کے جواں سال محمد صفر السلمی کے ساتھ سیرینا ہوٹل میں ناشتے پر ملاقات ہوئی۔
مسٹر عسیری حسب معمول خوشگوار موڈ میں گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سفارت کی دنیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں وہ اب ایران کے بارے میں ایک تھنک ٹینک Rasanah " "کے ساتھ ہیں۔ یہ تھنک ٹینک ایران میں طرز حکومت‘ اس کے اداروں اور ایران کی علاقائی پالیسیوں‘ یمن اور عراق میں اس کے کردار اور ایرانی پالیسیوں کے اہداف کے بارے میں تحقیقی مقالات شائع کرتا ہے۔ مذکورہ تھنک ٹینک‘ ایران کے بارے میں کئی کتابیں بھی شائع کر چکا ہے۔ اس تھنک ٹینک سے وابستہ جواں سال ریسرچر محمد بن صفر السلمی پی ایچ ڈی ہیں۔ عربی انگریزی اور فارسی پر دسترس رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تہران یونیورسٹی سے فارسی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پاکستان میں سعودی سابق سفیر علی عواض عسیری سے میں نے پوچھا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کب تک رہے گی تو انہوں نے کہا کہ یہ تعلقات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے لیکن بہتر تعلقات کے لئے تہران کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024