بیگم وقار النساء نون ساتویں پاکستانی وزیر اعظم فیروز خان نون کی دوسری بیوی ہیں محترمہ کا سابقہ نام وکٹوریہ ریکھی تھا یہ آسٹریا میں پیدا ہوئیں تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی، ملک فیروز خان نون جب برطانیہ میں حکومت ہند کے ہائی کمشنر تھے تب ان سے ملاقات ہوئی، ملک صاحب کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئیں،1945میں بمبئی میں ان سے شادی کی اور اپنا نام وکٹوریہ سے وقار النساء نون رکھ لیا، انہیں وکی نون بھی کہا جاتا ہے۔ محترمہ نے تحریک پاکستان کو اجاگر کرنے کے لیے خواتین کے کئی دستے بھی مرتب کئے اور سول نافرمانی کی تحریک میں انگریز کی خضر حیات کابینہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور جلوس منظم کرنے کی پاداش میں تین بار گرفتار بھی ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے بڑا متحرک کردار ادا کیا، خواتین ویلفیئر کی اولین تنظیم اپواء کی بانی ارکان میں آپ بھی شامل ہیں، وقار النساء گرلز کالج راولپنڈی اور وقار النساء اسکول ڈھاکہ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی، ہلال احمر کے لیے بھی آپ نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں. ضیاء الحق کے دور میں بطور منسٹر ٹورازم کے فروغ کے لیے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف بخوبی راغب کیا، پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن انہی کی نشانی ہے
1956ء میں جب ملک فیروز خان نون نے وزارت خارجہ سنبھالی تو ہر قیمت پر گوادر کو واگزار کرانے کا عہد کیا اور نہایت باریک بینی سے تمام تاریخی حقائق و کاغذات کا جائزہ لے کر یہ مشن محترمہ کو سونپ دیا، محترمہ نے دو سال پر محیط یہ جنگ تلوار کے بجائے محض قلم،دلائل اور گفت و شنید سے جیتی جس میں برطانیہ کے وزیر اعظم مکمیلن جو ملک صاحب کے دوست تھے انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا، یوں دو سال کی بھرپور جنگ کے بعد 8ستمبر 1958 کو گوادر کی 24مربع میل یا 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ پاکستان کی ملکیت میں شامل ہو گیا۔آج 16جنوری بیگم وقار النساء نون کی وفات کا دن ہے،انہیں ہم سے بچھڑے 19سال ہوگئے، وہ کون تھیں؟ ملک کے لیے کیا کر گئیں؟اُن کی کاوشوں کے ثمرات کیا ہیں ؟ کوئی نہیں جانتا۔ آج ملک کی 22کروڑ آبادی گوادر کے بارے میں ضرور جانتی ہے مگر ان میں سے چند ہزار لوگ بھی بیگم وقارالنساء کے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو گوادر کا علاقہ اٹھارویں صدی کے خان آف قلات میر نصیر نوری بلوچ کی ملکیت تھا جسکاآدھا ریوینیو خان صاحب کو دیا جاتا تھالیکن انتظام سارا گچکی قبائل کے ہاتھ میں تھا۔1783 میں جب عمان کے حکمران کو اپنے بھائی کے ہاتھوں شکست ہوئی تو اس نے خان آف قلات نے اس کی بہتر گزر بسر کی خاطر یہ علاقہ اس شرط پر اسکے سپرد کیا کہ جب سلطان کو ضرورت نہیں رہے گی تب تمام حقوق خان آف قلات کے پاس واپس چلے جائیں گے لیکن ایسا ممکن نہ ہو پایااور جب معاملہ مزید خرابی کی طرف گیا توثالثی کے بہانے برٹش نے مداخلت کردی لیکن عمان سے کچھ مراعات لیکر قلات خاندان کا دعویٰ ٹھکرا دیا اور بہانہ یہ بنایا کہ مزید گواہیاں سامنے آرہی ہیں حتمی فیصلہ کسی کے حق میں نہیں دیا جاسکتا۔اس خدمت کے بدلے برٹش نے عمان سے گوادر کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنی افواج گوادر میں داخل کر دیں ہاں البتہ عمان کو آدھا ریوینیو جاتا رہا اس طرح ایک عرصہ تک برطانیہ اس علاقہ پر قابض رہا،قیامِ پاکستان کے بعد جب خان آف قلات نے اپنی جائیداد پاکستان میں شامل کرنے کا ارادہ کیا تو گوادر کا معاملہ پھر اٹھایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوسکا اور پھر اسی دور میں ایک امریکی سروے کمپنی نے گوادرکی بندرگاہ کے بہت سارے فوائد بتائے۔ ایران کو جب یہ پتہ لگا تو اس نے اسے چابہار کے ساتھ ملانے کی کوششیں شروع کردیں اس دور میں شاہِ ایران کا طوطی بولتا تھا اور سی آئی اے اس کی پشت پناہی پر تھی امریکی صدر کے ذریعے کافی دباو ڈالا گیا کہ گوادر کو شاہِ ایران کے حوالے کیا جائے۔لیکن کوئی کامیابی نہ حاصل ہوسکی۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس جنگ کو محترمہ نے دوسال لڑا اور قلم ، دلائل اور گفت و شنید سے اسے جیتا۔عمان کے سلطان سعید بن تیمور نے بھی وطن عزیز پر کمال احسان کیا اور حامی تو بھر لی اور گوادر کو پاکستان کے حوالے کر دیا۔
اس گراں قدر خدمت کے بدلے محترمہ کو 1959 میں سرکار کا سب سے بڑا سول اعزاز’’ نشان ِامتیاز‘‘ عطا کیاگیا۔لیکن صرف یہی نہیں اس کے علاوہ ان کی اور بھی بہت سی گراں قدر خدمات ہیں۔نون خاندان آج بھی تحصیل بھلوال کے ایک گاؤں نور پور نون میں مقیم ہیں جن میں سے عدنان حیات نون ایم این اے بھی رہ چکے ہیں اس کے علاوہ ان کی اہلیہ گزشتہ حکومت میں وزیر بھی رہ چکی ہیں۔جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت کیلئے بہت سے کام کیے۔بیگم نون کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی لیکن انہوں نے اپنے سوتیلے بچوں سے بے حد محبت کا رشتہ استوار کیا اور اسے نبھایا۔ انہوں نے عمرہ کیا اور وصیت کی کہ انہیں ایک کلمہ گو مسلمان کے طورپر دفن کیاجائے۔ ’وکی نون ایجوکیشنل فائونڈیشن‘ آج بھی انکی سماجی خدمات کا چراغ جلائے ہوئے اندھیروں میں روشنی بانٹ رہی ہے اور یہ کارخیر کا مستقبل ذریعہ وقارالنساء نون کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔ اُن کے خاندان کے افراد بتاتے ہیں کہ بیگم وقار النِسا نون جیسی مہربان خاتون نہیں دیکھی وہ ’’مادر مہربان‘‘ تھیں ہم سب سے سگی ماں سے بھی بڑھ کر پیار کرتی تھیں انہوں نے گوادر ہمیں دلوایا تھا وہ گوادر جو آج مرکز نگاہ ہے جس پر ساری دنیا کی نگاہیں مر کوز ہیں۔ وکی نون عظیم الشان ادارہ تھیں جس نے پروقار ادارے تخلیق کئے انہوں نے برطانوی سامراج کیخلاف جنگ لڑی اور فتح پائی وہ شائد واحد گوری خاتون تھیں جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کیخلاف ہندوستان کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اب حد تو یہ ہے کہ نہ تو سابقہ حکومت نے ’’گوادر‘‘ پورٹ کی بدولت سی پیک معاہدے کے دوران بیگم وقارالنساء کو یاد رکھا اور نہ ہی اُس کے بعد ہی کسی تقریب میں محترمہ کا یا اُن کے خاندان کا یا ملک فیروز خان کو ذکر کیا جن کی قربانیوں سے آج دنیا کے اس بڑے منصوبے پر کام ہونے جا رہا ہے۔ آج اس خطے کی زمینوں پر قبضے کیے جا رہے ہیں سابق وزراء نے ہزاروں ایکڑ اراضی اپنوں میں بانٹ دی اور کسی کو پوچھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے حال ہی میں گوادر میں اربوں روپے کی بدعنوانی کے نئے اسکینڈل کاانکشاف بھی کیا ہے۔ گوادر میں زمینوں کی الاٹمنٹ کا یہ اسکینڈل بلوچستان کی تاریخ میں بدعنوانی کا سب سے بڑا اور اہم اسکینڈل ہے۔ نیب بلوچستان گزشتہ کئی ماہ سے گوادر میں سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ کی آڑ میں ہونے والی بدعنوانی کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے اور نئے سراغ بھی مل رہے ہیں۔ گوادرمیں ایک بااثر گروہ نے جعل سازی اور کرپشن کے ذریعے سرکار کی انتہائی قیمتی 3167 ایکڑ زمین اپنے نام پر الاٹ کروائی ہے، جس سے قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ اس اسکینڈل میں محکمہ ریونیو کے کئی اہم عہدیدار بھی مبینہ طور پر ملوث پائے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اس حوالے سے نوٹس لینا چاہیے اور ذمہ داران کو کٹہرے میں لا کر کارروائی کرنی چاہیے تاکہ اس عظیم خطے پر حکومت کی رٹ قائم رہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جس زمین کو بیگم نون نے اس قدر کاوشوں سے حاصل کیا ہم اُسے اپنی حوس اور کرپشن کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ خدارا آج گوادر کی گہرے سمندر کی قدرتی بندرگاہ پاکستان کیلئے پھل پھول لارہی ہے۔ یہ پودا جس نے لگایا اس کا ذکر نہ کرنا، اسے یاد نہ کرنا، اور اس کی کاوش کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی نہیں اور کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ محترمہ سمیت جن لوگوں نے پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں انہیں نصاب کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اُن سے آشنا ہو سکیں۔ اور اگر ہم نے بیگم وکی نون جیسی شخصیات کو بھلا دیا تو یقینا تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024