آج پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنے کی زیادہ ضرورت ہے
قومی اسمبلی میں شہبازشریف اور آصف علی زرداری کا تلخ لہجہ اور وزیراعظم عمران کی اپنے ٹویٹ میں مذمت
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ پورے ملک میں مہنگائی کی شدید لہر ہے‘ غریب آدمی کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘ ہماری حکومت نے جنگی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کا سلسلہ حل کیا جبکہ اب بجلی کا بحران دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ادویات کے نرخوں میں بھی 9 سے 15 فیصد اضافہ ہوگیا۔ انکے بقول مہمند ڈیم کی تعمیر خوش آئند ہے۔ اس کا ٹھیکہ دینے کا فیصلہ پی ٹی آئی کی حکومت میں کیا گیا‘ ایسی کیا قیامت آگئی تھی کہ دوسری بولی کو مسترد کردیا گیا۔ اس طرح ٹھیکہ دینگے تو اعتراض تو ہوگا۔ یہ ٹھیکہ بہت بڑا سوال بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سرکلرڈیٹ پھر اژدہا بن کر سر اٹھا رہا ہے‘ فرنس آئل سے مہنگی بجلی بنائی جارہی ہے‘ بے روزگاری کا پہاڑ گر گیا‘ اس کا کوئی ذمہ دار ہے؟ انکے بقول دوست ممالک آرمی چیف کی وجہ سے ملک کو قرضہ دے رہے ہیں‘ قرضے ملنے میں وزیراعظم عمران خان کا کوئی کمال نہیں۔ انہوں نے مہمند ڈیم کے ٹھیکے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔ دریں اثناء پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے‘ نیب کے پاس جائیں‘ ہم کیوں جائیں‘ پارلیمنٹ نیب کے چیئرمین کو طلب کرے۔ انہوں نے مہمند ڈیم کے معاملہ میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے موقف کی حمایت کی اور کہا کہ آج بغیر سوچے سمجھے فیصلے کئے جارہے ہیں۔ انکے بقول ہم نے بہت نیب دیکھے ہیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ جس دن آپ کو بلایا جائیگا‘ اس دن کیا ہوگا۔ نیب کسی رکن کو بلانے سے پہلے پارلیمنٹ سے پوچھے۔ ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ کام نہیں کررہا‘ حکومت کو دیمک کھا رہی ہے‘ ہم آپ کو نہیں گرائیں گے بلکہ آپکی حکومت خود گر جائیگی۔ مانگے تانگے کی حکومت نہ جانے کتنے دن چلے۔ جنگل میں ہر طرف سے بندے لاکر بھر دیئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس کا شکریہ کہ انہوں نے بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکال دیا۔ انکے بقول پاکستان اس طرح نہیں سنبھالا جاسکتا۔ مسلسل گرتے ہوئے ناکامی کی طرف جائینگے تو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ وفاقی وزیر فیصل وائوڈانے اپوزیشن لیڈران کی تقاریر کے جواب میں کہا کہ اس ملک کو بے ایمانی اور بربریت سے لوٹا گیا ہے‘ پاکستان کے مسئلے حل ہوگئے تو اپوزیشن کی سیاست دفن ہو جائیگی‘ ان لوگوں میں جواب سننے کی ہمت نہیں‘ ان لوگوں کیلئے جیل ہے یا جلاوطنی۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام نے سابقہ ادوار حکومت میں اپنے روٹی روزگار اور توانائی کے بحران سے متعلق مسائل حل نہ ہونے کے باعث ان سے مایوس ہو کر عمران خان کے تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے کی بنیاد پر ان سے توقعات وابستہ کیں۔ عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں اپوزیشن کے ایک اہم قائد کی حیثیت سے حکومت کو اسکے پورے دور اقتدار میں دھرنا سیاست اور احتجاجی تحریکوں کے ذریعے زچ کئے رکھا اور پھر پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد عدالتی عملداری کے تحت حکمران خاندان کی نااہلیت اور انکی قید و جرمانہ کی سزائوں تک نوبت لے آئے۔ اس بنیاد پر عوام انکے کرپشن فری سوسائٹی کے تصور سے بھی متاثر ہوئے چنانچہ جولائی 2018ء کے انتخابات میں انہیں وفاق اور تین صوبوں میں اپنے اتحادیوں اور ہمخیالوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے کا مینڈیٹ مل گیا جبکہ انکے اقتدار کے ساتھ ہی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل حل کرنے اور بجلی‘ گیس کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے حوالے سے عوام کی پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ توقعات وابستہ ہوگئیں۔ اسی طرح عوام کے ذہنوں میں وزیراعظم عمران خان کا ریاست مدینہ والا تصور بھی راسخ ہوگیا تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری کے مسائل سے نجات کے حوالے سے عوام کیلئے ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آنے کے بجائے نہ صرف انکے یہ مسائل بڑھتے محسوس ہوئے بلکہ مزید نئے اقتصادی مسائل بھی پیدا ہونے لگے جو ڈالر کے نرخوں میں دو بار اضافہ‘ دوبار ضمنی میزانیہ پیش ہونے اور اسی طرح بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بار بار اضافہ ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔
پی ٹی آئی کے اقتدار کے اولین چھ ماہ کے دوران بے شک یہ اطمینان بخش فضا بھی پیدا ہوئی کہ دوست ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے ہمیں اقتصادی مشکلات سے نکالنے کیلئے اربوں ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیجز سے سرفراز کیا گیاجس کے نتیجہ میں ہماری معیشت کے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اور ملک کے آئی ایم ایف کے شکنجے سے خلاصی پانے کی راہ ہموار ہوئی چنانچہ اس حوالے سے بھی عوام کے دلوں میں یہ توقعات پختہ ہوئیں کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی بنیاد پر اب حکومت کو ان پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے اور بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ناروا اضافہ کرنے کی مجبوری لاحق نہیں رہے گی مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عوام کی یہ توقعات اب بہت تیزی کے ساتھ مایوسی میں تبدیل ہونے لگی ہیں جبکہ عوام کو آج مہنگائی اور بے روزگاری کے نئے بحرانوں کا سامنا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت کی جانب سے عوام کی فلاح اور انہیں ریلیف دینے کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی ہوتی نظر بھی نہیں آرہی۔ اسکے برعکس حکومت کی سطح پر بلیم گیم کی سیاست کو زیادہ فروغ دیا جارہا ہے اور قومی خزانہ خالی ہونے سے کسی ریاستی ادارہ کے فعال نہ ہونے تک کے ہر معاملہ کی ذمہ داری سابقہ حکمرانوں پر انہیں چور‘ ڈاکو کے لقب سے مخاطب ہو کر ڈالی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں ماضی جیسی سیاسی محاذآرائی کی صورتحال پیدا ہوتی نظر آرہی ہے جو جمہوریت کی عملداری کیلئے انتہائی مضر ثابت ہوتی رہی ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سلطانیٔ جمہور کی روح پارلیمنٹ ہوتی ہے جسے جتنا فعال کیا جائیگا اور اس کا تشخص جتنا مثبت اور مضبوط بنایا جائیگا‘ اتنا ہی جمہوریت کے استحکام کی ضمانت ملتی رہے گی اور کسی کے دل میں جمہوریت کو نقب لگانے کی سوچ پیدا ہوگی نہ کوئی ایسی جرأت کرسکے گا۔ پارلیمنٹ کے استحکام کا دارومدار سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کے پارلیمنٹ کے اندر فعال کردار اور اس کیلئے انکی پارلیمنٹ میں موجودگی اور اسکی کارروائی میں دلجمعی سے حصہ لینے پر ہوتا ہے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت سے گریز اپنا شعار بنائے رکھا تو اب وزیراعظم بھی اسی رسم پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے اقتدار کے ابتدائی چھ ماہ کے عرصہ کے دوران بمشکل تین چار اجلاسوں میں شرکت کی اور وہ بھی انتہائی مختصر وقت کیلئے جبکہ سرکاری بنچوں کی جانب سے اپوزیشن کے قائدین اور ارکان کے ساتھ جارحانہ انداز میں مخاطب ہونا اور انہیں ہمہ وقت الزامات کی زد میں رکھنا بھی معمول بنالیا گیا ہے جس سے نہ صرف پارلیمنٹ کا ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ اپوزیشن زچ ہو کر باربار واک آئوٹ پر مجبور ہوتی ہے۔
گزشتہ روز اسی حوالے سے اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آئوٹ کیا تو وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹر پیغام میں اپوزیشن کے اس اقدام کی مذمت کی حالانکہ وہ خود اجلاس میں سرے سے شریک ہی نہیں تھے جس پر مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد آصف نے اپنی تقریر میں باور کرایا کہ دھمکیوں سے یہ ایوان نہیں چلے گا۔ چھ ماہ ہوگئے‘ یہاں نہ وزیراعظم آتے ہیں نہ وزیر خزانہ۔ پہلے انہیں تو لے کر آئیں۔ یقینااس صورتحال میں پارلیمنٹ کی بالادستی پر بھی حرف آتا ہے اور دیگر ریاستی اداروں کے متحرک ہونے کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ آج آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ قومی معاملات کے سلجھائو کیلئے اپنی فکرمندی کی بنیاد پر ہی قومی امور کی انجام دہی کے معاملہ میں عوام کو مطمئن کرنے اور ملک کے بیرونی و اندرونی دشمنوں کو پاکستان کے ہر لحاظ سے مضبوط ہونے کا ٹھوس پیغام دینے کیلئے اہم ملکی معاملات میں فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر حکومتی پالیسیوں کی بنیاد پر عوام میں کسی قسم کے اضطراب کی کیفیت پیدا نہ ہو اور انکی فلاح و بہبود کے کاموں سمیت تمام حکومتی ریاستی امور خوش اسلوبی کے ساتھ چلائے جا رہے ہوں تو کسی دوسرے ریاستی ادارے کو حکومتی معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہو۔ یہی وہ صورتحال ہے جس میں اپوزیشن قائدین بشمول میاں شہبازشریف اور آصف علی زرداری کو یہ باور کرانے کا موقع مل رہا ہے کہ ان سے حکومت چلائی جارہی ہے نہ سنبھالی جارہی ہے۔
اگر حکومتی رٹ اور گورننس کا ایسا ہی تاثر ابھرتا اور پختہ ہوتا رہا تو اس سے لامحالہ سلطانیٔ جمہور پر ہی حرف آئیگا اور اپوزیشن کو بھی حکمران پارٹی کو زچ کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا موقع مل جائیگا جبکہ ایسے حالات جمہوریت کیلئے کبھی سودمند ثابت نہیں ہوئے۔ اس تناظر میں حکمران پی ٹی آئی کو اب بہرصورت اپوزیشن والی جارحانہ اور بلیم گیم کی سیاست سے باہر نکل کر ایسی باعمل اور مضبوط حکمرانی کی جانب قدم بڑھانا چاہیے جو سسٹم کے استحکام پر منتج ہو اور جس سے عوام کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گھمبیر مسائل سے نجات مل سکتی ہو۔ اس سے ہی عوام کا سسٹم پر اعتماد مضبوط بنایا اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرایا جا سکتا ہے۔ اگر ماضی جیسی محاذآرائی کی سیاست کیلئے آج بھی راستے ہموار کئے گئے تو اس سے سسٹم کو ماضی جیسے نتائج سے بچانا مشکل ہو جائیگا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرانے کی بنیادی ذمہ داری بہرصورت حکمران جماعت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اسے محاذآرائی کے بجائے صلح جوئی پر فوکس کرنا اور تعمیری سیاست کو حرزِجاں بنانا ہوگا۔